نریندر مودی کا دورۂ قطر اور دو طرفہ توقعات
ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کے دورۂ قطر کے موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان توانائی، تعلیم اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے شعبوں میں سات سمجھوتوں پر دستخط کیے گئے۔
ہندوستان اور قطر نے اسی طرح غیرقانونی حوالوں کو کنٹرول کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے انٹیلی جنس اداروں کے درمیان معلومات کے تبادلے، بنیادی تنصیبات، تعلیم و تربیت، صحت، سیاحت اور کھیلوں کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے میدان میں سمجھوتوں پر دستخط کیے۔
ہندوستان اور قطر کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کے معاہدوں پر دستخط سے قطع نظر مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کے لیے خلیج فارس کے عرب ممالک کی اہمیت توانائی کے مسئلے اور ان ملکوں میں افرادی قوت بھیجنے کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے۔ ہندوستان کی آٹھ فیصد اقتصادی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے توانائی کی بڑھتی ہوئی ضرورت کا سامنا ہے اور اس بنا پر وہ خلیج فارس کے عرب ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دے کر اپنی توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
جبکہ ہندوستان کی علاقے کے عرب ممالک کی افرادی قوت کی ضرورت پر بھی توجہ ہے۔
خلیج فارس کے عرب ممالک میں کام کرنے والی ہندوستان کی ہنرمند افرادی قوت ہر سال اربوں ڈالر ہندوستان بھیجتی ہے اور ہندوستان بدستور علاقے کے عرب ممالک کو مزید افرادی قوت لینے کی ترغیب دلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگرچہ ہندوستان کے وزیراعظم نے امیر قطر سے ملاقات میں قطر میں اپنے شہریوں کے تحفظ کی اپیل کی ہے لیکن حال ہی میں منظرعام پر آنے والی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ علاقے کے عرب ممالک میں ہندوستان کی ہنرمند افرادی قوت کی حمایت کے لیے ضروری قوانین موجود نہیں ہیں اور بہت سے مواقع پر ہندوستان کی ملازم خواتین کی کنیزوں کے طور پر علاقے کے عرب ممالک میں خرید و فروخت ہوتی ہے۔
ان حالات میں ایسا لگتا ہے کہ خلیج فارس کے عرب ممالک ترجیح دیتے ہیں کہ برصغیر کے علاقے سے بنگلہ دیش جیسے اسلامی ملک کے افراد سے فائدہ اٹھائیں اور وہ انھیں ہندوستان کے ہندو مزدوروں اور ہنرمند افراد پر ترجیح دیتے ہیں۔ جس کے باعث ہندوستان عرب ممالک کو ہندوستان کی زیادہ افرادی قوت سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دلانے کی کوشش کر رہا ہے۔
حال ہی میں ہندوستان کے بعض سیاسی و صحافتی حلقوں نے افرادی قوت علاقے کے عرب ممالک میں بھیجنے کی حکومت کی پالیسی پر تنقید کی تھی۔ ان حلقوں کا یہ خیال ہے کہ ہندوستانی حکومت نے توانائی کی ضرورت پوری ہونے اور مزدوروں اور ہنرمندوں کی آمدنی حاصل کرنے کے بدلے، عرب ملکوں میں ہندوستانی باشندوں کے ساتھ ہونے والے برے سلوک پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور وہ ان کی عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے ضروری قوانین وضع کرنے کا مطالبہ نہیں کرتی ہے۔
اس بات کے پیش نظر کہ ہندوستان اس بات پر زور دیتا ہے کہ علاقے کی عرب کمپنیوں کے ساتھ اس کا تعاون، سرمایہ کاری اور ہنرمند افرادی قوت ان ملکوں میں بھیجنے کی صورت میں ہو، ہندوستان کے سیاسی و صحافتی حلقے اس بات پر تاکید کر رہے ہیں کہ ہندوستانی حکومت خلیج فارس کے عرب ممالک میں اپنی افرادی قوت کے تحفظ کے لیے کوشش کرے کیونکہ اس علاقے میں کئی اور ممالک بھی ہیں جو ہندوستان کی توانائی کی ضروریات کو بھرپور طریقے سے پورا کر سکتے ہیں۔
بہرحال دہشت گرد اور تشدد پسند گروہوں کا مقابلہ کرنے کا مسئلہ بھی ہندوستان کے لیے اہم ہے کہ جو اس ملک کی سیکورٹی کے لیے خطرہ ہیں۔ چونکہ کہا جاتا ہے کہ قطر جیسے خلیج فارس کے بعض عرب ممالک داعش کے دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں، اس لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اس سلسلے میں بات چیت بھی ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کے لیے اہم تھی۔