اسرائیل کی غاصبانہ پالیسیوں پر تل ابیب کے میئر کی تنقید
تل ابیب کے میئر رون ہولدای نے صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی تشدد پسند اور سخت گیر پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم کی غاصبانہ پالیسیاں تخریبی ہیں اور ان پر فلسطینیوں نے ردعمل ظاہر کیا ہے۔
اسرائیل کے اس عہدیدار نے فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ اسرائیل دنیا میں وہ واحد جگہ ہے کہ جہاں زیرقبضہ لوگ کسی شہری حقوق کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ تل ابیب کے میئر نے مزید کہا کہ آپ فلسطینیوں کو اپنے قبضے میں رکھ کر اس بات کی امید نہیں رکھ سکتے کہ ہر چیز ٹھیک ہو۔
تل ابیب کے میئر کا یہ بیان اور صیہونی حکومت کی پارلیمنٹ کے بعض نمائندوں کے بیانات بدھ کے روز تل ابیب میں ہونے والی کارروائی کے ردعمل کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ بعض اسرائیلی حکام اسے نیتن یاہو اور اس کے انتہا پسند وزراء کی فلسطینیوں کے بارے میں غلط پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
اگرچہ تل ابیب کے میئر کے بیان پر اسرائیل کے نائب وزیر جنگ اور فوج کے اعلی کمانڈروں نے ردعمل ظاہر کیا ہے لیکن اس وقت فوج کے اندر بھی بعض کمانڈر نیتن یاہو کابینہ کی جنگ پسندانہ پالیسیوں کے حامی نہیں ہیں۔
بدھ کو تل ابیب میں ہونے والی صیہونیت مخالف کارروائی کے بعد کہ جس میں چار صیہونی ہلاک اور بہت سے زخمی ہو گئے تھے، صیہونی حکومت نے فلسطینیوں کے خلاف اقدامات مزید سخت اور تیز کر دیے ہیں۔
گزشتہ برسوں کے دوران اسرائیل کی موجودہ کابنیہ کی تشدد آمیز اور جنگ پسندانہ پالیسیوں کا نتیجہ مقبوضہ فلسطین یعنی اسرائیل میں بدامنی اور تشدد میں اضافے کی صورت میں نکلا ہے۔
اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے کہ جو دو ہزار نو سے وزارت عظمی کے عہدے پر براجمان ہیں، غزہ کا محاصرہ، اس علاقے پر ہوائی حملے اور فلسطینی علاقوں میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر جاری رکھ کر فلسطین کے نہتے عوام کے خلاف ایک ہمہ گیر اور بھرپور جنگ شروع کر رکھی ہے۔
نیتن یاہو کی کابینہ کے وزراء کھلے عام فلسطینی عوام کے قتل عام اور انھیں اپنے آبائی علاقوں سے نکالنے کی بات کرتے ہیں اور وہ فلسطینیوں کے گھروں پر قبضہ کر کے اور انھیں بےگھر کر کے صیہونی بستیاں تعمیر کر رہے ہیں تاکہ وہاں فلسطینی عوام کی جگہ صیہونیوں کو آباد کیا جائے۔
فلسطینیوں کو حراست میں رکھنے، انھیں ایذائیں دینے اور قتل کرنے کی پالیسی نے ایک طرف، اور فلسطیینوں کو انیس سو سڑسٹھ میں قبضہ کیے گئے علاقوں خاص طور سے بیت المقدس سے باہر نکالنے کی پالیسی نے دوسری جانب، اس وقت فلسطینی عوام پر عرصہ حیات اس قدر تنگ کر دیا ہے کہ حتی عالمی برادری نے بھی اسرائیل سے احتجاج کیا ہے اور وہ اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔
دنیا اسرائیل کے بائیکاٹ کی کیمپین شروع کر کے اب اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو روکنے اور مقبوضہ علاقوں میں نسل کشی کی پالیسی کے خاتمے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
اسرائیل کے بجٹ کا سب سے زیادہ حصہ جدید ترین ہتھیاروں کی خریداری کے لیے وزارت جنگ اور صیہونی کالونیوں کی تعمیر کے لیے وزارت ہاؤسنگ کو دیا جاتا ہے جس سے یہ علاقہ نہ صرف الجھ کر رہ گیا ہے بلکہ اسرائیل کو اندرونی طور پر سخت اقتصادی اور معاشی حالات کا سامنا ہے۔
نیتن یاہو کی کابینہ فلسطینی وفد کے ساتھ مذاکرات روک کر اور انیس سو نوے کی دہائی میں اسرائیل اور فلسطینی انتظامیہ کے درمیان ہونے والے تمام معاہدوں کو ختم کر کے کھلے الفاظ میں فلسطینیوں کے خلاف جنگ اور تشدد کی بات کر رہی ہے اور اس نے فلسطینیوں کے خلاف انسانیت سوز اقدامات کر کے عالمی جذبات و احساسات کو بھی ہوا دی ہے۔
ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیلی شخصیات نے بھی اسرائیل کے اندر اور باہر سے اسے لاحق خطرات کو محسوس کرتے ہوئے فلسطینیوں کے ساتھ بات چیت اور ان کے حقوق کی بازیابی کو تشدد اور جھڑپوں کے خاتمے کی واحد راہ حل قرار دیا ہے۔
یہ ایسی حقیقت ہے کہ تل ابیب کے میئر رون ہولدای جس کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی میں بھی اس راستے پر مثبت قدم اٹھانے کی جرات نہیں ہے۔