افغانستان: امریکی فوجیوں کے اختیاز زیادہ
افغانستان میں امریکی فوجی کمانڈروں کو مزید اختیارات دے دئے گئے۔
امریکہ کے سینیئر فوجی کمانڈروں نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد کے بارے میں مہینوں کی بحث و گفتگو کے بعد وائٹ ہاؤس نے اس ملک میں طالبان کے خلاف فضائی حملوں کے بارے میں افغانستان میں تعینات امریکی فوجی کمانڈروں کے اختیارات میں اضافہ کر دیا ہے۔
واشنگٹن سے موصولہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی فوجی کمانڈروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے خلاف حملوں اور افغان فوجیوں کی مدد و حمایت کے بارے میں امریکی فوجی کمانڈروں کے اختیارات میں اضافے کا فیصلہ حال ہی میں کیا گیا ہے۔
طالبان کے خلاف حملوں کے بارے میں امریکی فوجی کمانڈروں کے اختیارات میں اضافے کا یہ فیصلہ ایسی حالت میں کیا گیا ہے کہ حال ہی میں وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ اب افغانستان میں طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ نہیں بنائے گا اس لئے کہ یہ گروہ افغانستان کے امن عمل میں شامل ہونے کے لئے تیار ہو گیا ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکی صدر بارک اوباما نے اس بات کا دعوی کرتے ہوئے کہ امریکی فوجی صرف افغان فوجیوں کی تربیت اور ان کی حمایت کی غرض سے اس ملک میں باقی رہیں گے، افغانستان میں دس ہزار امریکی فوجیوں کو باقی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مگر افغانستان میں طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں سے امریکہ اور تمام مغربی ملکوں کو بہانہ مل گیا ہے کہ وہ، اپنے فوجیوں کو واپس افغانستان پہنچانے کے ساتھ فضائی حملوں کے مشن کی بات کریں۔ جبکہ تقریبا پندرہ برسوں تک امریکہ اور نیٹو کے لگ بھگ ایک لاکھ فوجی، افغانستان میں موجود رہے جن کا مشن دہشت گردی کا مقابلہ کرنا رہا مگر اس ملک سے نہ صرف یہ کہ دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ اس ملک میں طالبان کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ داعش جیسے دہشت گرد گروہ نے بھی جنم لے لیا جس سے افغانستان کی سلامتی کو سخت خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
دوسری جانب امریکہ کے ایک تحقیقاتی مرکز نے اپنی تازہ رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں حالیہ برسوں کے دوران عام شہریوں کے ہونے والے قتل عام کی اہم ترین وجہ، اس ملک پر ہونے والے فضائی حملے ہیں۔ بنابریں افغانستان پر فضائی حملوں کے بارے میں امریکی فوجی کمانڈروں کے اختیارات میں اضافے سے افغان سماج و معاشرے میں اس اعتبار سے مزید تشویش پیدا ہو رہی ہے کہ امریکہ کے وحشیانہ حملے مزید شدّت کے ساتھ جاری رہیں گے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ حامد کرزئی کے دور اقتدار میں طے پانے والے سمجھوتے کے مطابق امریکی فوجیوں کو افغان فوجیوں کے ساتھ ہم آہنگی اور اطلاع کے بغیر کوئی بھی حملہ اور فوجی اقدام کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔
بہرحال وائٹ ہاؤس کی جانب سے افغانستان میں امریکی فوجی کمانڈروں کے اختیارات میں اضافے کے احکامات، ایسی حالت میں جاری کئے گئے ہیں کہ امریکی صدر بارک اوباما نے عوام فریبانہ رخ اختیار کرتے ہوئے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بارے میں اپنے وعدے پر تاکید کی ہے۔ جبکہ امریکی مقاصد اور منصوبے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ واشنگٹن، افغانستان کو علاقے میں اپنے ایک فوجی اڈّے کی حیثیت سے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وائٹ ہاؤس افغانستان کے بحران میں کچھ اس طرح سے عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی جاری رکھنے اور ان کی کارروائیوں کا جواز پیش کیا جا سکے۔