مظلوم فلسطینی صیہونی مظالم کا شکار
غاصب صیہونی حکومت کی جانب سے فلسطینی علاقوں پر جارحانہ حملوں اور مظلوم فلسطینیوں کے خلاف ظالمانہ اقدامات بہت زیادہ شدّت اختیار کر گئے ہیں۔
غاصب صیہونی حکومت نے فلسطینیوں کے مقابلے میں اپنی شکست و ناکامی کا ازالہ کرنے کے لئے انھیں اجتماعی طور پر سزائیں دینے کی پالیسی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر لیا ہے۔ صیہونی حکومت کی جارحیت کے جواب میں تل ابیب میں غاصب صیہونیوں کے خلاف فلسطینیوں کی کارروائی کے بعد صیہونی حکومت کے وزیر جنگ لیبرمین نے جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر سزائیں دینے کا عمل شروع کر دیا ہے اور انھوں نے کئی روز کے لئے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے کا محاصرہ نیز مسجد الاقصی میں نماز جمعہ میں شرکت کے لئے فلسطینیوں کے غزہ سے بیت المقدس جانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
فلسطینیوں کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کے جارحانہ اقدامات کے تحت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کام کرنے والے فلسطینیوں کے پرمٹ بھی ختم کر دیئے گئے ہیں اور اعلان کیا گیا ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں کسی بھی فلسطینی کو کام کاج کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
صیہونی حکومت نے غزہ اور مقبوضہ علاقوں میں کام کے لئے جانے والے تراسی ہزار فلسطینیوں کے پرمٹ بھی روک دیئے ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے صیہونی حکومت کے ان اقدامات پر واشنگٹن کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور یہ اقدام، فلسطینیوں کے خلاف جرائم کا سلسلہ تیز کرنے سے متعلق اسرائیل کے اقدامات پر امریکی ہری جھنڈی کے مترادف ہے۔ مارک ٹونر نے کہا ہے کہ ان کا ملک، پوری توانائی سے اسرائیل کی حمایت کرتا ہے اور وہ اس بات کا خواہاں ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے رویے کو درک کریں۔
ان تمام مسائل سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ صیہونی حکومت، مختلف طریقوں سے فلسطینیوں کے خلاف جرائم کا سلسلہ مزید تیز کر کے فلسطینیوں کی نسل ختم کرنے پر مبنی اپنے نسل پرستانہ مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ صیہونی حکومت ہمیشہ فلسطینیوں میں رعب و وحشت پھیلانے اور انھیں مرعوب کرنے نیز انھیں استقامت کا سلسلہ جاری رکھنے سے روکنے کی کوشش کرتی ہے جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ یہ غاصب حکومت، اپنے مقاصد کے حصول کی غرض سے کسی بھی طرح کے ظلم اور جرائم کے ارتکاب سے ہرگز گریز نہیں کرتی۔
صیہونی حکومت کی تاریخ، فلسطینیوں کے خلاف جارحانہ اور نسل پرستانہ اقدامات سے بھری ہوئی ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کی جانب سے ظالمانہ اقدامات میں تیزی سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ حکومت، فلسطینیوں کی استقامت کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ فلسطینیوں کی انتفاضہ روکنے کے لئے ہر طرح کے جارحانہ اقدامات عمل میں لانے کے باوجود یہ غاصب حکومت، انتفاضہ کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
گذشتہ برسوں کے دوران فلسطینیوں نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ صیہونی حکومت کے جارحانہ اور وحشیانہ اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل و مشکلات کے باوجود وہ، صیہونی حکومت کے مقابلے میں اپنی استقامت کا سلسلہ روکنے پر آمادہ نہیں ہوئے ہیں اورغاصب صیہونی حکومت کے ہر قسم کے جارحانہ اور وحشیانہ اقدامات بھی ان فلسطینیوں کو جھکنے پر مجبور نہیں کر سکے ہیں اور ان کی استقامت و مزاحمت کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
فلسطین کی حالیہ تبدیلیاں بھی فلسطینی عوام کی انتفاضہ کا نیا مرحلہ شروع ہونے کا آئینہ دار ہے کہ جس کے پھیلتے ہوئے دائرے نے صیہونی ارکان کی چولیں ہلا ڈالی ہیں اور غاصب صیہونی حکومت اب کہیں بھی خود کو استقامت کی کاری ضربوں سے محفوظ نہیں پا رہی ہے۔ فلسطین کی تبدیلیاں، فلسطینی عوام کی استقامت نئے مرحلے میں داخل ہونے کی ترجمان ہے جسے فلسطینیوں کی تیسری انتفاضہ یا انتفاضہ قدس سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس مسئلے نے غاصب صیہونی حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے جو پہلے ہی اس سے قبل کی دو انتفاضہ تحریکوں کے مقابلے میں بے بس ہو چکی ہے۔ اس طرح یہ مسئلہ، صیہونی حکام کے لئے ڈراؤنا خواب بنتا جا رہا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ فلسطینی عوام کی تیسری انتفاضہ اس سے قبل کی انتفاضہ سے زیادہ سخت اور وسیع پہلو کی حامل ہو گی اور صیہونی حکومت کے خلاف احتجاجات کی نئی لہر میں تمام فلسطینی عوام اور گروہوں کی موجودگی، مذکورہ حقیقت کو بیان بھی کرتی ہے۔