ملا اختر منصور کا قتل اور روس کا موقف
افغانستان کے امور میں روسی صدر کے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف نے اعلان کیا ہے کہ طالبان سرغنہ ملا اختر منصور کا قتل، افغانستان میں امن مذاکرات ختم ہونے پر منتج ہوا ہے-
افغان امن کے عمل میں دوسرے منفی عوامل کے بارے میں ضمیر کابلوف نے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے اختیارات میں اضافے سے اس ملک کی سیکورٹی کی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور اس سے صرف طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے عمل کو نقصان پہنچے گا-
روسی عہدیدار نے مزید کہا کہ ملااختر منصور کا قتل اور امریکی فوجیوں کے اختیارات میں اضافہ افغانستان کی موجودہ صورت حال کو فوجی راہ حل کی جانب لے جائے گا-
درایں اثنا روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے بھی اعلان کیا ہے کہ افغان طالبان اور کابل حکومت کے درمیان براہ راست رابطے کی برقراری نہایت نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے-
افغان امن کے عمل میں امریکی کردار پر روس کی تنقید گذشتہ مہینوں میں اور اس ملک میں چارفریقی اجلاس کے پانچ دور کے انعقاد کے بعد بڑھتی جا رہی ہے-
پانچ مہینے پہلے جب امریکہ نے واشنگٹن ، بیجنگ ، کابل اور اسلام آباد کے نمائندوں کی موجودگی میں چار فریقی اجلاس کا منصوبہ پیش کیا تھا تو ماسکو حکومت نے بھی واشنگٹن کے ساتھ علاقائی و بین الاقوامی رقابت کے اصولوں کے مطابق روس، ہندوستان اور چین کے وزرائے خارجہ کی موجودگی میں سہ فریقی اجلاس کے انعقاد کے لئے اپنے منصوبے کی خبر دی تھی کہ جو اپریل دوہزار سولہ میں روس میں منعقد ہوا -
افغان امن کے عمل کے لئے چار فریقی اجلاسوں میں امریکہ کی ناکامی کے بعد واشنگٹن کے منصوبے کے مطابق افغان امن کے عمل پر روس کی تنقیدیں بڑھ گئی ہیں-
ملااخترمنصور کے قتل کے بعد روس کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ کی قیادت میں افغان امن کے چار جانبہ گروہ کی کوششوں کے لاحاصل ہونے کے پیش نظر ماسکو سیاسی طریقے سے افغان امن کے عمل میں مدد کے لئے تیار ہے -
اس سے قبل بھی کابلوف نے افغانستان میں امن کے موجودہ عمل پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماسکو اس عمل میں نئے طریقے سے شرکت کے لئے تیار ہے-
روسی حکومت ، افغانستان کے امن کے عمل میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کے اپنے منصوبے کو کامیاب بنانے کے لئے گذشتہ مہینوں سے ہی طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے اور ماسکو کے حکام کے بقول یہ رابطے طالبان کے نئے سرغنہ ملا ہیبت اللہ آخوندزادہ کے ساتھ بھی جاری ہیں-
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے نوشکی میں امریکی ڈرون حملے میں ملا اختر منصور کے قتل کے بعدآخوندزادہ، طالبان کے نئے سرغنہ معین ہوئے ہیں-
ماہرین کا کہنا ہے کہ روس، امریکی فوج کے ڈرون حملے میں ملا اختر منصور کے قتل کے بعد سے ہی افغانستان میں اپنے اہداف کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے-
ماسکو ، افغان امن کے لئے چار فریقی اجلاس کے انعقاد کے لئے امریکی منصوبے کو لاحاصل ثابت کرنے کی کوشش کے ساتھ ہی کہ البتہ عملی میدان میں بھی ایسا ہی ہے ، یہ سمجھتا ہے کہ طالبان کے سابق سرغنہ کا قتل افغان امن کے عمل کے سلسلے میں وہائٹ ہاؤس کی کمان کا آخری تیر تھا-
روس کی نگاہ میں امریکہ بخوبی جانتا ہے کہ ملا اختر منصور کا قتل افغانستان میں تشدد میں اضافے اور امن کے عمل کے پوری طرح ٹھپ پڑ جانے کا باعث بنے گا لیکن اپنے مفادات کی بنا پر اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناکامی کے بھنور سے نکلنے کے لئے اسے ضرورت تھی کہ وہ طالبان کے سابق سرغنہ کو قتل کر کے اس میدان میں اپنی بری شبیہ کو سدھارے-