Jun ۱۳, ۲۰۱۶ ۱۵:۲۱ Asia/Tehran
  • افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی جھڑپ

تورخم بارڈر پر افغانستان اور پاکستان کے درمیان فوجی جھڑپ کے بعد پاکستان کی وزارت دفاع نے اس کے نتائج پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ سرحد کی مؤثر مینجمنٹ پاکستان کی سیکورٹی کے لیے بہت اہم ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاک افغان سرحد پر واقعہ کا مناسب جواب دیا گیا ہے۔ پاک افغان سرحد پر بلا روک ٹوک آمد و رفت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد پر حفاظتی انتظامات پاکستان کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہیں۔

دوسری جانب وزیراعظم پاکستان کے دفتر کے ترجمان کا اس واقعہ پر کہنا ہے کہ پاک افغان سرحد پر افغان فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ جیسے واقعات، دو طرفہ تعلقات متاثر کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا توقع ہے کہ افغان حکومت واقعہ کی فوری تحقیقات کرے گی۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ کشیدگی تورخم بارڈر پر پاکستان کی جانب سے اپنی حدود کے اندر گیٹ نصب کرنے پر ہوئی۔ آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق افغان فورسز کے ساتھ ہونے والی جھڑپ میں ایف سی کا ایک جوان اور خاصہ دار فورس کے دو جوان زخمی ہوئے ہیں۔ اس بیان کے مطابق پاک فوج کی جانب سے افغان فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ کا بھرپور اور موثر جواب دیا گیا۔

دوسری جانب افغان حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے اس گیٹ کی تعمیر غیرقانونی اقدام ہے۔ افغانستان کے مقامی حکام نے بھی تورخم بارڈر پر جھڑپ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جھڑپ پاکستان کی جانب سے اس علاقے میں ایک گیٹ کی تعمیر کے مسئلے پر ہوئی۔ افغانستان کی وزارت دفاع سے وابستہ ایک اعلی فوجی عہدیدار نے بھی کہا ہے کہ تورخم بارڈر پر ہونے والی جھڑپ میں ایک افغان فوجی ہلاک اور پاچ زخمی ہوئے ہیں۔

سرحدی مسائل حالیہ مہینوں کے دوران افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک اہم ترین مسئلے میں تبدیل ہو گئے ہیں اور افغانستان کی حکومت اور مقامی حکام نے کئی بار پاکستان کی جانب سے تورخم بارڈر پر رکاوٹیں تعمیر کرنے اور خاردار تار لگانے پر اعتراض کیا ہے اور پاکستانی حکام کو اس کے نتائج کے بارے میں خبردار کیا ہے۔

حال ہی میں اسلام آباد میں افغانستان کے سفیرعمر زاخیلوال نے بھی کہا ہے کہ ڈیورنڈ لائن پر پاکستان جو تعمیرات کر رہا ہے وہ دہشت گردوں کو کچلنے کا باعث نہیں بنیں گی۔ انھوں نے پاکستانی وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے اس بیان پر کہ ڈیورنڈ لائن پر رکاوٹیں اور تعمیرات دہشت گردوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ہیں، ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ڈیورنڈ لائن پر پاکستان کی فوجی کارروائیاں دہشت گردوں کو کچلنے کا باعث نہیں بنیں گی کیونکہ تخریبی کارروائیوں کی منصوبہ بندی پاکستان کے بڑے شہروں میں کی جاتی ہے۔

تورخم بارڈر افغانستان اور پاکستان کے درمیان لوگوں کی آمدورفت اور اشیا کے تبادلے کا ایک اہم ترین راستہ ہے۔ یہ بارڈر سیکورٹی مسائل اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان اختلافات میں شدت آنے کے بعد پاکستان کی جانب سے بند کر دیا گیا تھا لیکن پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ساتھ افغانستان کے سفیر عمر زاخیلوال کی حالیہ ملاقات کے بعد اسے دوبارہ کھول دیا گیا۔

درایں اثنا افغانستان کے مقامی حکام کا خیال ہے کہ حکومت پاکستان دونوں ملکوں کے درمیان موجود سرحدی راستوں اور بارڈرز کو افغانستان کے سرحدی علاقوں کے خلاف دباؤ کے ایک حربے کے طور پر استعمال کرتی ہے جبکہ سرحدوں کی دونوں جانب کے عوام ہمیشہ آزادی کے ساتھ سرحد کے آر پار جاتے رہے ہیں اور وہ اپنی اشیا کی تجارت بھی کرتے ہیں۔

بہرحال سیاسی مبصرین کے خیال میں ایک ایسے وقت میں کہ جب افغانستان اور پاکستان کو ہر دور سے زیادہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سنجیدہ تعاون کی ضرورت ہے، سرحدی جھڑپیں نہ صرف اس قسم کے گروہوں کے لیے سیکورٹی مہیا ہونے کا باعث بنتی ہیں بلکہ ان سے اسلام آباد اور کابل کے درمیان بے اعتمادی میں بھی اضافہ ہوتا ہے کہ جس کا طویل مدت کے دوران سرحدوں کے دونوں جانب رہنے والے لوگوں کے تعلقات پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔

ٹیگس