Jun ۱۴, ۲۰۱۶ ۱۸:۵۹ Asia/Tehran
  • روس کے مقابل امریکی پالیسیاں ناکام

عالمی اور علاقائ سطح پر روس کے مقابل امریکہ ناکام ہوچکا ہے ۔

امریکی ایوان نمائندگان میں خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ ایڈ روئیس نے حیرت انگیز بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ روس کے مقابل امریکہ کی پالیسیاں شکست کھاچکی ہیں لیکن اس کے باوجود امریکہ کو بھرپور اعتماد سے روس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔

امریکی ایوان نمائندگان میں خارجہ امور کمیٹی میں منگل کے روز صدر پوتین کی صدارت میں روس کے مقابل امریکہ کی پالیسیوں کے زیرعنوان رپورٹیں پیش کی جائیں گی اور اس اجلاس میں امریکہ کے مفادات کو یقینی بنانے کے لئے امریکی پالیسیوں کو موثر بنانے پر غور کیا جائے گا۔

روس کے مقابل امریکہ کا دفاعی رویہ اور علاقے نیز عالمی سطح پر روس کے اثر و رسوخ پرپابندی لگانے میں امریکہ کی ناکامی پر ایڈ روئیس نے کانگریس کے سینئر رکن کی حیثیت سے تنقید کی ہے۔

سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کےبعد سے امریکہ اور روس کے تعلقات میں خاصے نشیب و فراز آئے ہیں۔ نوے کی دہائی میں جب یلتسین صدر تھے تو روسی، امریکہ کو مثبت نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس کے نتیجے میں روس کے ساتھ امریکہ اور یورپی یونین کے اچھے تعلقات بن گئے تھے۔ لیکن مشرق کی طرف نیٹو کے بڑھتے ہوئے قدم، یورپ میں اینٹی میزائل سسٹم نصب کرنے کی امریکہ کی کوششیں، انسانی حقوق کے بہانے روس کے داخلی امور میں آئے دن کی مداخلت اور امریکہ کے دیگر دشمنانہ اقدامات سےتدریجا امریکہ کے ساتھ روس کے تعلقات میں کشیدگی آتی گئی۔

ان اقدامات کے نتیجے میں روس نے سمجھ لیا کہ مغرب بالخصوص امریکہ بنیادی طور سے روس کو کمزور کرنےکے درپے ہے اور امریکہ، روس کے سیاسی مستقبل سے تشویش کی وجہ سے روس کے اسٹراٹیجیک ایٹمی ہتھیاروں کو جلد از جلد کم کرنے کی تدابیر اختیار کرنے کی کوشش کررہا تھا لیکن یوکرین کے بحران نے دونوں ملکوں کے درمیان شدید کشیدگی پیدا کردی اور ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان بڑی خلیج پیدا ہوگئی۔ اس کشیدگی میں اضافہ ہوتا رہا اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے سامنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے رہے۔

درایں اثنا امریکہ نے روس کے خلاف زیادہ تر جارحانہ اور دھمکی آمیز رویہ اپنایا ہے جبکہ واشنگٹن نے فوجی اعتبار سے بھی روس کے خلاف دشمنانہ رویہ اپنا رکھا ہے اور دوہزار پندرہ کی قومی فوجی اسٹراٹیجی میں ہو یا امریکہ کے اعلی سیاسی اور فوجی حکام کے بیانات میں ہو کھلم کھلا ماسکو کے خلاف دشمنانہ موقف اختیار کیا ہے۔ امریکی حکام مسلسل یہ کہتے آرہے ہیں کہ روس، امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کے خلاف سنگین خطرہ ہے۔امریکہ نے علاقائی اور عالمی سطح پرروس کی شبیہ بگاڑنے کےلئے نہایت وسیع پیمانے پر میڈیا وار شروع کررکھی ہے۔

بحران یوکرین سے مغرب کا ھدف یوکرین کو روس کے اثر و رسوخ سے نکالنا اور اسے اپنے زیر اثر لانا تھا لیکن روس نے اس بحران سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے جزیرہ نمائے کریمہ کو اپنی سرزمین سے محلق کرلیا۔ اس کے علاوہ ماسکو نے مشرقی یوکرین میں روس کے حامی علیحدگی پسندوں کی حمایت جاری رکھ کر یوکرین کی مغرب نواز حکومت کے منصوبوں کو کامیاب ہونے نہیں دیا جس کے نتیجے میں یوکرین کی صورتحال عملا تعطل کا شکار ہوکر رہ گئی ہے۔

شام کے بحران کے بارے میں بھی مغربی حکومتیں بالخصوص امریکہ یہ تصور کررہا تھا کہ وہ مسلح گروہوں کی حمایت کرکے شام کی حکومت کوجس کے روس کے ساتھ نہایت وسیع تعلقات ہیں آسانی سے گرادے گی لیکن اس تصور کے برخلاف روس نے شام کی حکومت اور صدر بشار اسد کی حمایت کے لئے ستمبردوہزار پندرہ میں اپنی فوج شام بھیجی جس کے نتیجے میں مسلح گروہوں کو پے درپے شکستیں ہوئیں اور اب دہشتگرد دفاعی پوزیشن میں آگئے ہیں۔

شاید یہی دو مسئلے روس کے مقابل امریکہ کی پالیسیوں کی ناکامی کی دلیل ہیں اوراس بات کا سبب بنے ہیں کہ کانگریس کا ایک سینئر رکن روس کے ساتھ تعاون کا مطالبہ کررہا ہے۔ دراصل ایڈ روئیس کو معلوم ہوچکا ہے کہ امریکہ کے لئے بہتر ہوگا کہ وہ مختلف جیو پولیٹیکل میدانوں میں روس کے ساتھ دشمنی اور رقابت کرنے کے بجائےتعاون کی راہ اپنائے۔

 

ٹیگس