Jun ۱۶, ۲۰۱۶ ۱۶:۳۳ Asia/Tehran
  • افغانستان میں مغربی ملکوں کے فوجیوں کی صورت حال

برطانیہ نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ نے اپنے اتحادیوں سے کہا ہے کہ وہ آئندہ سال افغانستان میں اپنے ملک کے فوجیوں کی تعداد میں کمی کرنے کے منصوبے پر نظرثانی کر رہا ہے۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ نیٹو نے افغانستان میں اپنے فوجی باقی رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے اعلان کیا ہے کہ واشنگٹن، دو ہزار سترہ تک افغانستان میں تعینات اپنے فوجیوں کی تعداد کو نو ہزار آٹھ سو سے کم کر کے پانچ ہزار پانچ سو تک پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جبکہ امریکہ میں بعض حلقے، افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد میں مزید کمی کئے جانے کے خواہاں ہیں۔

سیاسی مبصرین کے نقطہ نظر سے امریکہ کی اس بات کو بالکل بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ وہ افغانستان میں اپنے فوجی منصوبے پر نظرثانی کر کے فوجیوں کی تعداد کم کرنا چاہتا ہے، اس لئے کہ امریکہ، مغربی ممالک نیز نیٹو نے بارہا اس بات کو ثابت کیا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی علاقائی حکمت عملی کے تحت ہمیشہ پالیسیوں اور فوجی منصوبوں کو تبدیل کرتے رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور مغربی ملکوں کے اس اعلان کے باوجود کہ وہ دو ہزار سولہ تک افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد کم کر دیں گے، اس ملک میں داعش دہشت گرد گروہ کے جنم پانے کے بہانے امریکہ اور مختلف مغربی ملکوں نے اپنے فوجیوں کو واپس افغانستان پہنچایا ہے اور یہی نہیں بلکہ امریکی صدر بارک اوباما نے فضائی حملے کرنے کے لئے امریکی فوجی کمانڈروں کو اختیارات بھی دے دیئے ہیں۔

اس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ، افغانستان کو اپنے ایک فوجی اڈّے کی حیثیت سے دیکھتا ہے اور وہ بدستور اس ملک میں اپنی پوزیشن مستحکم بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ کے پیچھے پیچھے برطانیہ بھی افغانستان میں اپنے قدم جمانے کے لئے بظاہر واشنگٹن کی پالیسیوں پر ہی عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ بیشتر سیاسی مبصرین، یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ افغانستان میں اپنے سامراجی تجربے کے پیش نظر برطانیہ، مسلح گروہوں کے ساتھ مفاہمت کے ذریعے اس ملک میں اپنے فوجیوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہتا ہے۔ حالیہ برسوں میں برطانیہ کی جانب سے طالبان گروہ کے ساتھ پہلی مفاہمت، موسی قلعہ نامی علاقے میں ہوئی جس نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ مغربی حلقے، اپنے عوام فریبانہ نعروں کے باوجود افغانستان میں انتہا پسندی کی جڑیں مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔

اس رو سے برطانیہ کا یہ اعلان کہ امریکہ نے اپنے اتحادیوں سے کہا ہے کہ وہ آئندہ سال افغانستان میں اپنے ملک کے فوجیوں کی تعداد میں کمی کرنے کے منصوبے پر نظرثانی کر رہا ہے، نہ صرف یہ کہ افغانستان میں امریکہ اور برطانیہ کی اسٹریٹیجک پالیسی کے مطابق نہیں ہے بلکہ عوام کو دھوکہ اور فریب دینے کی، ایک حکمت عملی سمجھا جاتا ہے۔

بہرحال افغان فوجی کمانڈروں کے نقطہ نظر سے ان کے ملک کو بیرونی فوجیوں کی موجودگی سے کہیں بڑھکر دہشت گردوں اور مسلح گروہوں کے مقابلے میں اپنی پوزیشن مستحکم بنانے کے لئے فوجی ساز و سامان کی ضرورت ہے۔ افغانستان پر پندرہ برسوں کے قبضے کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں نے افغان فوج اور اس ملک کی سیکورٹی فورسز کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لئے نہ صرف یہ کہ کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے بلکہ کچھ اس طرح سے عمل بھی کیا ہے کہ افغانستان، امن کی فراہمی کے لئے ہمیشہ مغربی ملکوں سے وابستہ بنا رہے۔

بعض افغان فوجی کمانڈروں کے بقول بعض محاذوں پر دہشت گردوں اور مسلح گروہوں کے پاس افغان فوجیوں کے پاس موجود ہتھیاروں سے کہیں زیادہ کارآمد اور نئے قسم کے ہتھیار موجود ہیں۔

ٹیگس