طالبان کے بارے میں کابل کو اسلام آباد کی نصیحت
ایسی حالت میں کہ جب افغانستان کے طالبان اور کابل حکومت کے درمیان امن مذاکرات کے انعقاد کا مستقبل واضح نہیں ہے، پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ یہ گروہ امن مذاکرات میں شرکت کے لئے کسی محرک کا خواہاں ہے-
خارجہ امور میں پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ افغانستان کو ملک کے اقتدار میں طالبان کا ایک حصہ مد نظر رکھنا چاہئے کہا کہ مذاکرات میں طالبان کو وہ چیز ملنی چاہئے جو وہ میدان جنگ میں حاصل نہیں کر سکتے اور یہ وہ چیز ہے کہ جو طالبان کو مذاکرات کا محرک دے گی-
انھوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد صرف یہ کر سکتا ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے میں مدد کردے لیکن آخرکار طالبان کے ساتھ مذاکرات تو افغانوں کو ہی کرنے ہیں اور یہ مذاکرات ایسے ہونے چاہئے کہ طالبان کے پاس گفتگو کا کوئی محرک یا جذبہ موجود ہو-
افغانستان میں سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں مذاکرات کے سلسلے میں سرتاج عزیز کے بیانات ان تجزیوں کی تائید کرتے ہیں کہ اسلام آباد حکومت ، افغانستان کے حکومتی ڈھانچے میں طالبان کو سیاسی حصہ دلانا چاہتی ہے- اسی بنا پر افغانستان کے بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ سرتاج عزیز نے اپنے ان بیانات سے افغانستان کے امن مذاکرات میں خود کو طالبان کے طور پر پیش کیا ہے-
کیونکہ اب تک طالبان نے افغانستان کے امن مذاکرات کے بارے میں اظہار خیال نہیں کیا ہے اور جنگ تیز کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ امن مذاکرات میں شرکت کرنے پر مائل نہیں ہیں لیکن چونکہ امن مذاکرات میں طالبان کو شامل ہونے پر راضی کرنے کے لئے پاکستان پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے ، اس لئے حکومت اسلام آباد اس گروہ کے مطالبات کو پیش کر کے گیند کابل حکومت کے کورٹ میں ڈالنے اور یہ ظاہرکرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ افغانستان کی حکومت کی جانب سے طالبان کے مطالبات پر توجہ نہ دیئے جانے کے باعث مذاکرات نہیں ہو پا رہے ہیں-
اگرچہ پاکستان، طالبان کی حمایت اور اس ملک میں ان کے سرغنوں کی موجودگی کو مسترد کرتا ہے لیکن حالیہ واقعات خاص طور پر پاکستان میں طالبان کے سابق سرغنہ ملا اختر منصور کے قتل نے ثابت کر دیا کہ طالبان سرغنے اسی ملک میں ہیں اور اس امن مذاکرات میں شرکت کے لئے طالبان کو مجبور کرنے کے لئے اسلام آباد حکومت پر دباؤ بڑھ گیا-
افغانستان کے سیاسی حلقوں کی نظر میں پاکستان، افغانستان میں اپنا نفوذ جاری رکھنے کے لئے طالبان کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے- افغانستان میں عوامی حکومت کی تشکیل سے اس ملک کی پاکستان کی کالونی اور اسلام آباد کے لئے اس کی تزویراتی گہرائی کی حیثیت ختم ہو گئی ہے - اس بنا پر پاکستان چاہتا ہے کہ طالبان کو استعمال کرتے ہوئے اور اس کے لئے حکومت میں مناسب حصہ لیتے ہوئے افغانستان میں اپنی پوزیشن برقرار رکھے -
اسی بنا پر کابل حکومت کا خیال ہے کہ ملک کے امن مذاکرات، افغان حکومت کی جدت عمل اور ملک کے آئین کے مطابق انجام پائیں-
کابل حکومت، اسلام آباد پر طالبان اور دہشت گرد و انتہاپسند گروہوں کے سلسلے میں دہرا رویہ رکھنے کا الزام لگاتی ہے اور اس کا خیال ہے کہ حکومت پاکستان، افغان امن مذاکرات شروع کرنے میں مدد کے لئے اپنے معاہدے پرعمل نہیں کررہی ہے-
اسی بنا پر سرتاج عزیز نے اعلان کیا ہے کہ امریکیوں کا یہ خیال کہ اسلام آباد طالبان اور حقانی جیسے دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرتا ہے ، غلط ہے کیونکہ پاکستان نے مختلف دہشت گرد گروہوں پر کاری ضربیں لگائی ہیں-
لیکن افغان حکام پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ حکومت پاکستان مذاکرات شروع کرانے میں افغانستان کی حکومت کی سنجیدہ مدد کر کے اس سلسلے میں اپنی نیک نیتی کو ثابت کرے-