Jun ۲۳, ۲۰۱۶ ۱۸:۴۴ Asia/Tehran
  • اسرائیل کے تشدد آمیز اقدامات میں شدت

صیہونی حکومت نے فلسطینیوں کے خلاف اپنے مظالم میں شدت پیدا کر دی ہے۔

دریں اثناء موصولہ رپورٹوں سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ یورپی حکام فرانسیسی طرز کے سازباز کے عمل کے سلسلے میں نام نہاد فلسطینی انتظامیہ کے حکام کے ساتھ مشاورت اور مذاکرات کر رہے ہیں۔

اس سلسلے میں نام نہاد فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی شعبے کی سربراہ فیڈریکا موگرینی کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا کہ اس اجلاس کا اصل مقصد مشرق وسطی میں سازباز کا عمل از سر نو شروع کرنے سے متعلق فرانس کی تجویز کا جائزہ لینا تھا۔

محمود عباس نے کہا کہ فیڈریکا موگرینی کے ساتھ ملاقات میں ہم نے رواں سال کے آخر تک فرانسیسی تجویز کے مطابق ایک کانفرنس کے انعقاد کے سلسلے میں یورپی یونین کے موقف کا جائزہ لیا تاکہ آئندہ کے مذاکرات کے لئے ٹائم فریم ورک تیار کیا جاسکے۔

فرانس کی مرکزیت کے ساتھ سازبازعمل کے احیا کے لئے نئے مرحلے کا آغاز ایسی حالت میں ہو رہا ہے کہ جب سازباز کا نتیجہ صیہونی حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور اس حکومت کی توسیع پسندی اور تشدد کو جائز قرار دینے کے سوا کچھ اور نہیں نکلا ہے۔ جب بھی سازباز کا عمل شروع ہوتا ہے تو فلسطینیوں پر صیہونی حکومت کے مظالم میں شدت پیدا ہوجاتی ہے۔

یہی وجہ ہےکہ مشرق وسطی سازباز عمل کے احیا کے لئےکئے جانے والے اقدامات کے دوران فلسطینیوں کی گرفتاریوں میں شدت پیدا ہوئی ہے اور ان کے خلاف طویل مدت قید سمیت ظالمانہ فیصلے جاری کئے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں صیہونی عدالت نے بدھ کے دن چار فلسطینی قیدیوں کو صیہونیت مخالف کارروائیاں انجام دینے کے الزام میں دو بار عمر قید اور تیس سال مزید قید کی سزا سنائی ہے۔

مشرق وسطی سازباز سے متعلق فرانس کی جانب سے پیش کی جانے والی تجویز میں فلسطینیوں کے بہت سے حقوق کو نظر انداز کیا گیا ہے جس کی وجہ سے صیہونی حکومت فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے کے سلسلے میں مزید گستاخ ہوگئی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ فرانس کی تجویز سمیت مشرق وسطی میں ساز باز سے متعلق پیش کی جانے والی تجاویز میں یہودی ریاست کے طور پر اسرائیل کو تسلیم کئے جانے، پناہ گزین فلسطینیوں کو تاوان ادا کرنے یا جن علاقوں میں وہ اس وقت ٹھہرے ہوئے ہیں وہیں ان کو بسانے کے ذریعے ان کی وطن واپسی کے حق کی پامالی اور استقامت کو غیر مسلح کرنے جیسے امور شامل ہیں۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب صیہونی حکومت کی جیلوں میں قید فلسطینیوں اور ان کی تقدیر کا فرانسیسی تجویز میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ مغربی ممالک نے سازباز عمل کی سازش اس طرح تیار کی ہے کہ اس سے صیہونی حکومت کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو ہی عملی جامہ پہنایا جائے گا اور وہ بھی ظاہری طور پرامن پسندانہ اقدامات کے ذریعے۔

بعض مغربی حکومتوں کے موجودہ اقدامات سے ان اقدامات کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جو انہوں نے مشرق وسطی سازباز عمل کے ابتدائی ایام میں انجام دیئے تھے۔ اس زمانے میں سازباز عمل کے سلسلے میں مغربی ممالک کی جانب سے امریکہ کی ڈکٹیٹ کردہ پالیسیوں کی پیروی اور واشنگٹن کی خدمت کرنا یورپی ممالک کے دارالحکومتوں مثلا اوسلو اور میڈرڈ میں ساز باز معاہدوں پر منتج ہوا تھا۔

ان معاہدوں کے نتیجے میں نہ صرف فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں نہ آ سکا بلکہ ان کی وجہ سے سازباز مذاکرات کے نام پر فلسطینیوں پر صیہونی حکومت کے مظالم میں شدت پیدا ہونے کا راستہ ہموار ہوا۔ فلسطینیوں اور صیہونی حکومت کے درمیان تقریبا پچیس برس کی سازباز کا نتیجہ صرف اس عمل کی شکست کی صورت میں ہی برآمد ہوا ہے۔

فلسطینیوں کے لئے سازباز کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ہیں جن سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ یہ عمل نہ صرف فلسطینی ریاست کی تشکیل کا ذریعہ ثابت نہیں ہوا ہے بلکہ یہ ایک ایسی سازش تھی جو مغرب والوں نے فلسطینیوں کو فلسطینی کاز سے دور کرنے اور ان کے حقوق کو پامال کرنے کے لئے تیار کی تھی۔

 

ٹیگس