Jun ۲۳, ۲۰۱۶ ۱۸:۵۳ Asia/Tehran
  • حقانی مدرسے کی مدد کرنے کا اعتراف

پاکستان کی وفاقی حکومت انتہاپسند دینی مدارس کو کسی بھی طرح کی مدد دینے اور ان کے ساتھ تعاون کرنے کی تردید کرتی ہے لیکن صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر شاہ فرمان کا کہنا ہے کہ اس صوبے کی حکمران جماعت تحریک انصاف سالانہ کئی ملین ڈالر حقانی گروہ سے وابستہ مدارس کو دیتی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق شاہ فرمان نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں واقع اکوڑہ خٹک میں حقانی مدرسے کو سالانہ تین ملین ڈالر کی مدد دی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ صوبہ خیبرپختونخوا میں برسراقتدارعمران خان کی جماعت تحریک انصاف اس صوبے میں مذہبی اداروں کے خلاف اقدام نہیں کرتی ہے بلکہ ان کے ساتھ تعاون کرتی اور ان کو مالی مدد دیتی ہے۔

حقانی گروہ کا بانی جلال الدین حقانی اور برصغیر پاک و ہند میں دہشت گرد گروہ القاعدہ کی شاخ کا سرغنہ عاصم عمر اور کچھ عرصہ قبل پاکستان میں ہلاک ہونے والا طالبان کا سابق سرغنہ ملا اختر منصور ان سب نے حقانی مدرسے سے ہی تعلیم پائی۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے مذہبی امور کے وزیر حبیب الرحمان کے مطابق اس صوبے کے وزیراعلی پرویزخٹک نے مدرسہ حقانی کو سالانہ پندرہ لاکھ ڈالر مدد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ مدرسہ حقانی کو سنہ انیس سو سینتالیس میں قائم کیا گیا اور اس وقت یہ مدرسہ جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق گروپ کے سربراہ سمیع الحق کی سربراہی میں چل رہا ہے۔

اس مدد کا انکشاف ایسے عالم میں ہوا ہے کہ جب افغانستان اور امریکہ کی حکومتیں حقانی گروہ کو دہشت گرد قرار دیتی ہیں اورانہوں نے اسلام آباد حکومت سے مطالبہ کیا ہےکہ وہ سنجیدگی کے ساتھ اس گروہ کے خلاف کارروائی کرے۔

پاکستان او افغانستان کے سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس ملک کے مذہبی مدارس میں وہابی افکارونظریات کی تعلیم اور تشدد و انتہا پسندی کی تربیت دی جاتی ہے اور یہ مدارس خطے میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کی ترویج کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

پاکستان میں بیس ہزار سے زیادہ ایسے دینی مدارس ہیں جو وہابی افکار و نظریات سے متاثر ہونے کی وجہ سے انتہاپسندی اور دہشت گردی کی تربیت دینے کے علاوہ دہشت گرد گروہوں کو افرادی قوت بھی فراہم کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والوں کے پاس دہشت گرد اورانتہا پسند گروہوں میں شامل ہونے کے سوا کوئی اور کام نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے افغانستان کے سیاسی اور دینی حلقوں کا کہنا ہے کہ دینی مدارس کا باقی رکھنا درحقیقت خطے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔ طالبان کے بہت سے سرغنوں نے مدرسہ حقانی میں ہی تعلیم حاصل کی ہے اور حقانی گروہ ہی طالبان گروہوں کو تشکیل دیتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہماری پشتو سروس کی رپورٹ کےمطابق افغانستان کی سول سوسائٹی اور شخصیات نے حال ہی میں کابل میں مظاہرہ کر کے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کے داخلی امور میں پاکستان کی مداخلت کی روک تھام کرے۔ مظاہرین نے اقوام متحدہ سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو اپنی بلیک لسٹ میں شامل کرے۔

بہرحال حقانی گروہ سے وابستہ حقانی مدرسے کو تین ملین ڈالر سے زیادہ کی مدد دینے پر مبنی پاکستان کے صوبائی وزیر شاہ فرمان کے اعتراف سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ پاکستان پر ڈالے جانے والے بین الاقوامی دباؤ کے باوجود اس ملک میں سعودی عرب سے مالی مدد حاصل کرنے والے دینی مدارس کو استعمال کر کے انتہا پسندی میں شدت پیدا کرنے کی پالیسی بدستور جاری ہے۔ جس کی وجہ سے اسلام آباد حکومت کو ماضی سے زیادہ علاقائی اور بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

 

ٹیگس