افغانستان میں امن کے عمل کی مخالفت اور اس کے نتائج
ایسی حالت میں جب افغان امن مذاکرات کے انعقاد میں مدد کے لئے علاقائی و بین الاقوامی کوششیں جاری ہیں طالبان گروہ نے ایک بار پھر ان مذاکرات میں شامل ہونے کی پرزور مخالفت کی ہے-
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ جب تک افغانستان میں غاصب طاقتیں موجود رہیں گی اس وقت تک مذاکرات کی بات کرنا وقت برباد کرنا ہے-
درایں اثنا افغانستان کی حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمتیار نے بھی، کہ جنھوں نے اس سے قبل امن کے عمل میں شامل ہونے کی بات کی تھی، اپنے تازہ ترین پیغام میں اعلان کیا ہے کہ اس گروہ اور حکومت کے درمیان امن سمجھوتے پر دستخط نہیں ہوں گے- انھوں نے افغانستان کی متحدہ قومی حکومت کے خاتمے کو حکومت کے ساتھ امن سمجھوتے کی پیشگی شرط قرار دیا ہے- حکمتیار نے اس سے قبل بھی امریکہ کے ساتھ سیکورٹی معاہدہ منسوخ کئے جانے اور افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء کو حکومت کے ساتھ امن سمجھوتے پر دستخط کے لئے اپنی پیشگی شرائط میں قرار دیا تھا-
افغانستان کی حزب اسلامی کے رہنما حکمتیار نے ایسی حالت میں اپنے موقف کو تبدیل کیا ہے کہ افغان حکام اور ان سے مذاکرات کرنے والے وفود نے طرفین کے درمیان سمجھوتے کے حتمی ہونےکی خبر دی تھی- افغانستان کی حکومت کے ساتھ حکمتیار کا سمجھوتہ اس ملک کے امن مذاکرات میں طالبان کے شامل ہونے کے بارے میں خوش فہمی پیدا ہونے کا باعث بنا تھا-
اس بنا پر ہر چند کہ پوری طرح واضح نہیں ہے کہ حکمتیار کی حزب اسلامی کس منطق کی بنیاد پر افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات سے باہر نکلی ہے لیکن اس ملک کی سینیٹ کے ایک رکن نے گلبدین حکمتیار کے موقف کی تبدیلی کو افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی کشیدگی کی وجہ بتایا ہے-
سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے عمل میں شامل ہونے کے لئے طالبان اور حکمتیار کی سب سے اہم شرط یعنی افغانستان سے غاصب فوجیوں کا انخلاء ان کی امن پسندی کے دعوے کے منافی ہے کیونکہ امریکہ اور نیٹو کی افغانستان میں موجودگی کی وجہ یہی ہےکہ طالبان اور دیگر جنگجو اور دہشت گرد گروہ اس ملک میں بدامنی میں شدت پیدا کر رہے ہیں-
افغانستان کے مختلف علاقوں میں طالبان کے حملوں میں شدت آنے کے بعد امریکہ اور نیٹو کو افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد بڑھانے کا بہانہ ملا اور امریکی صدر باراک اوباما نے بھی فضائی حملوں میں اس ملک کے فوجیوں کے شامل ہونے کا حکم جاری کر دیا- بنا برایں افغانستان میں سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان اور حکمتیار کی جانب سے امن مذاکرات کی مخالفت درحقیقت دشمن کا ساتھ دینا ہے جس سے ملک میں قبضہ جاری رہنے کی زمین ہموار ہوتی ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ افغانستان کے عوام کو توقع ہے کہ طالبان اورحکمتیار، کہ جو خود اسی ملک کے سماج سے تعلق رکھتے ہیں، فہم و فراست، دور اندیشی اور افغان امن کے عمل میں شامل ہو کر اس ملک سے غاصب فوجیوں کے انخلاء کی زمین ہموار کر رہے ہیں -
کیونکہ افغانستان میں امن و امان قائم ہونے کے بعد غاصبوں کے پاس اس ملک میں رہنے کا بہانہ نہیں رہے گا-
بنابریں ماہرین کی نگاہ میں طالبان اور حکمتیار امن مذاکرات کے عمل کی مخالفت کر کے نہ صرف افغان عوام کی صورت حال بہتر بنانے میں کوئی مدد نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس ملک پر امریکہ اور نیٹو کا قبضہ جاری رہنے کا سبب بنے ہوئے ہیں اور اس کا نتیجہ افغانستان میں بدامنی اور خونریز جھڑپیں جاری رہنا ہے کہ جو ایک طرف افغانستان کے لئے امداد جاری رکھنے کے سلسلے میں عالمی اعتماد ختم ہونے کا سبب بنے گا اور دوسری جانب اس ملک کے عوام کے سامنے طالبان بالخصوص پختونوں کی شبیہ پہلے سے زیادہ خراب ہوگی-