یورپی یونین کے رہنماؤں کے اجلاس میں کیمرون کی آخری بار شرکت
یورپی یونین کے سربراہوں نے اس یونین سے برطانیہ کے جدا ہونے کے بارے میں ہونے والے ریفرنڈم کے بعد برسلز میں اپنے دو روزہ اجلاس میں یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کے مسئلے کا جائزہ لیا۔
منگل کو یورپی یونین کے تشکیل پانے والے اس اجلاس میں برطانوی وزیر اعظم ڈیویڈ کیمرون موجود رہے تاہم وہ بدھ کے روز یورپی یونین کے سربراہی اجلاس کی دوسری نشست میں نظر نہیں آئے۔ اکتوبر کے مہینے میں وزارت عظمی کے عہدے سے کنارہ کشی اختیار کئے جانے سے قبل یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں ڈیویڈ کیمرون کی یہ آخری بار شرکت ہے۔ برسلز اجلاس سے قبل یورپی یونین کے اہم رہنماؤں نے اپنے موقف کا اعلان کر دیا تھا اور انھوں نے ڈیویڈ کیمرون سے ملاقات میں یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کا عمل فوری طور پر شروع کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔ برسلز اجلاس میں یورپی کمیشن کے چیئرمین ژان کلوڈ یونکر نے کہا ہے کہ برطانیہ کے پاس لزبن معاہدے کی پچاسویں شق کو فعال بنانے کے لئے زیادہ وقت نہیں ہے اور یہ کام، یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کے لئے مذاکرات شروع کئے جانے کے مترادف ہو گا۔ اس قانونی شق پر دستخط کے بعد یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کا دو سالہ عمل شروع ہو جائے گا۔ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے بارے میں فوری طور پر مذاکرات شروع کرنے کے بارے میں برلین میں پیر کے روز اٹلی کے وزیر اعظم میتھیو رنزی اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے اختتام پر فرانس کے صدر فرانسوا اولینڈ نے کہا کہ وقت گنوانا صحیح نہیں اس لئے کہ غیر یقینی کی صورت حال سے بدتر کوئی اور چیز نہیں ہوتی اور غیر یقینی کی صورت حال ہی زیادہ تر غیر منطقی سیاسی رویہ اختیار کئے جانے کا باعث بنتی ہے۔ اسی طرح غیر یقینی کی صورت حال ہی، مالی نامعقول اقدامات کا باعث بنتی ہے۔ مگر برطانیہ کی حکومت کو مذاکرات فوری طور پر شروع کرنے میں جلدی نہیں ہے۔ ڈیویڈ کیمرون نے اعلان کیا ہے کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کے آغاز کی ذمہ داری، برطانیہ کے نئے وزیر اعظم پر عائد ہو گی۔ جبکہ اکتوبر میں کنزرویٹو پارٹی کے سالانہ اجلاس میں ڈیویڈ کیمرون کے جانشین کا تعین ہو گا۔ البتہ یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کے بارے میں مذاکرات کے عمل کو موخر کرنے سے متعلق حکومت برطانیہ کا موقف، ایک حکمت عملی ہے اور یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کے امور کا ذمہ دار آئندہ وزیر اعظم کو قرار دینا صرف وقت حاصل کرنے کا ایک بہانہ ہے۔ برطانیہ، یورپی یونین سے باہر نکلنے کے عمل کا آغاز،اگر اس طریقے سے کرتا ہے کہ جس کے، یورپی یونین کے بڑے اور بااثر ممالک خواہاں ہیں، تو یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کے ناقابل پیش گوئی سیاسی و اقتصادی نتائج برآمد ہو ں گے۔ برطانیہ کی تقریبا نصف تجارت، یورپی یونین کے رکن ممالک کے ساتھ ہی انجام پاتی ہے۔ یورپی یونین سے باہر نکلنے کے بعد برطانیہ کو سب سے بڑا دھچکا اسی بات سے لگے گا کہ وہ یورپی یونین کی متحدہ منڈی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ برطانیہ کی موجودہ حکومت، اس بات کی کوشش کر رہی ہے کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کے لئے مذاکرات کا آغاز ہونے سے قبل ہی، کوئی ایسی صورت نکالے کہ جس سے یورپی یونین کی منڈی برطانیہ کی دسترس سے باہر نہ ہو سکے۔ یورپی منڈی تک دسترسی کا براہ راست تعلق اس یونین کے اٹھائیس رکن ملکوں کے شہریوں کی ایک دوسرے کے ممالک میں آزادانہ طور پر آنے جانے سے ہے۔ جبکہ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے بارے میں ریفرنڈم کرائے جانے کی ایک اصل وجہ، ترک وطن کرنے والوں کا داخلہ روکنے کے لئے سرحدوں کو زیادہ سے زیادہ کنٹرول کرنا ہے۔ ڈیویڈ کیمرون نے برسلز اجلاس میں اپنے یورپی ہم منصبوں کو خبردار بھی کیا ہے کہ آزادانہ آمد و رفت کے لندن کے موقف پر دکھائے جانے والے باغی تیور سے برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تجارتی معاملے کا موقع ضائع ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں قومی اقتدار اعلی کے مسئلے کے ساتھ ساتھ کنٹرول کا مسئلہ بھی گہری تشویش کا باعث بن سکتا ہے۔ اس بارے میں برطانوی وزیر اعظم کے دفتر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یورپی یونین کے رہنماؤں کو ڈیویڈ کیمرون کا پیغام یہ تھا کہ اگر وہ برطانیہ کے ساتھ قریبی اقتصادی تعلقات کے خواہاں ہیں تو وہ امیگریشن اصلاحات یا ترک وطن کرنے والوں کے داخلے کے مسئلے کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ تاہم یورپی یونین کے رہنماؤں نے برطانیہ کی اس درخواست پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے کہا ہے کہ اگر برطانیہ، یورپی یونین کی منڈی تک دسترسی رکھنا چاہتا ہے تو اسے آزادانہ آمد و رفت کے مسئلے کو قبول کرنا ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ جو یورپی یونین سے جدا ہونا چاہتا ہے اسے یہ توقع بھی نہیں رکھنا چاہئے کہ سارے معاہدے ختم ہو جائیں تاہم مراعات باقی رہیں۔ انجیلا مرکل نے کہا کہ یورپی یونین کا رکن ملک ہونے اور رکن ملک نہ ہونے کے درمیان ایک نمایاں فرق ہونا چاہئے۔ برطانیہ میں ریفرنڈم کے نتیجے پر ابتدائی طور پر ظاہر کئے جانے والے ردعمل سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یورپی یونین کے اہم ممالک، خاص طور سے فرانس اور جرمنی، اس بات کے خواہاں ہیں کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے جدا ہونے کا عمل، فوری طور پر اور بہت زیادہ شفّاف نیز ہزیمت کا حامل ہونا چاہئے تاکہ یورپی یونین کا کوئی اور رکن ملک، برطانیہ کی طرح اتنی آسانی سے متحدہ یورپ کے مسئلے کو سیاسی و اقتصادی طور پر مسائل سے دوچار نہ کر سکے۔ جرمنی کی چانسلر اور مختلف یورپی رہنماؤں نے برطانیہ کی مانند یورپی یونین کے دیگر رکن ملکوں میں ممکنہ ریفرنڈم پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے یورپی یونین کے زوال کا باعث قرار دیا ہے۔