افغانستان کی بدترین صورتحال پر نیٹو کا ردعمل
افغانستان میں تعینات نیٹو کےکمانڈر نے گذشتہ دنوں افعانستان کے دارالحکومت کابل میں ہونے والے دہشتگردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان نے یہ حملہ کرکے ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ اس کی نظر میں عوام کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
افغانستان کی وزارت داخلہ نے گذشتہ دنوں کابل میں ہونے والے دو دھماکوں میں مرنے والوں کی تعداد تیس اور زخمیوں کی تعداد اٹھاون بتائی ہے اور طالبان نے ان دونوں دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔
سیاسی مبصرین کے مطابق افغانستان میں خونریز جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہنے بالخصوص کابل میں ہونے والے دھماکوں پر نیٹو کا ردعمل محض دکھاوا، تکراری اورعوام کو فریب دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ نیٹو اور امریکہ نے طالبان کو افغان عوام کا دشمن قرار دیا ہے اور اس گروہ کے اقدامات کی مذمت کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس گروہ کے ذریعے انجام دیئے جانے والے حملوں کو روکنے کے لئے اس نے کوئی بھی اقدام نہیں کیا ہے اور حال ہی امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ اب وہ افغانستان میں طالبان کے ٹھکانوں پر کبھی بھی حملہ نہیں کرے گا کیونکہ یہ گروہ اب افغانستان میں امن کے لئے کی جانے والی کوششوں کی طرف مائل ہے ۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ سمیت افغانستان کے اعلی حکام نے بارہا کہا ہےکہ افغانستان میں طالبان امن کے لئے کی جانے والی کوششوں کی جانب مائل نہیں ہے اور اس گروہ کے سرغنہ بھی انتہا پسندی اورعوام کے قتل عام کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔
امریکہ نے سنہ دوہزار ایک میں طالبان اورالقاعدہ سے مقابلے کا بہانہ بنا کرافغانستان پر حملہ اور اس ملک پر قبضہ کرلیا تھا ، نیٹو بھی امریکی فوج کی حمایت اور تعاون کے عنوان سے افغانستان میں داخل ہوگیا تھا اور دونوں نے سنہ دوہزار چودہ تک اپنے تقریبا ایک لاکھ دس ہزار فوجی افغانستان میں تعینات کئے تھے لیکن عملی طور پر نہ تو امریکہ ہی نے اور نہ ہی نیٹو نے افغانستان میں طالبان اور القاعدہ سے مقابلے کے لئے کوئی اقدام کیا بلکہ افغان معاشرہ ان کے اقدامات میں اضافے سے بہت زیادہ متاثر ہوگیا ہے ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو اسی کوشش میں ہیں کہ دہشتگرد گروہوں کہ جن کو انہوں نے افغانستان اور علاقے میں اپنے اہداف و مقاصد آگے بڑھانے کے لئے تشکیل دیا ہے اسی طرح اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں تا کہ اس ملک اور علاقے کو بدامن کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ اور نیٹو کے لئے افغانستان پر اپنا قبضہ جاری رکھنے کے لئے مناسب بہانہ فراہم کرسکیں۔
افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کا اپنے اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ، طالبان کے تشدد کے مقابلے کے بہانے فضائی کارروائیوں میں امریکی فوجیوں کی شرکت کے لئے باراک اوباما کا حکم ، اسی تناظر میں قابل غور و خوض ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ نیٹو افغانستان کے بحران کو کنٹرول اور دسیوں فوجی چھاؤنیوں کو اپنے اختیار میں رکھنے کے ساتھ اس کوشش میں ہے کہ اس ملک کو علاقے میں اپنی فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردیں۔
وسطی ایشیاء اور قفقاز میں علاقائی حلقوں کا یہ خیال ہے کہ افغانستان میں امریکی پالیسی ، اس ملک کے ذریعے سے علاقے میں دہشتگردی اور بحران کو منتقل کرے۔
بہرحال افغانستان میں سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ اس ملک میں امن کا دار و مدار پاکستان پر ہے اور بارہا اس ملک سے اپیل کی ہے کہ طالبان پر دباؤ ڈال کر انہیں افغانستان کے امن عمل میں شامل کریں۔ کابل کی ان درخواستوں کے حوالے سے اسلام آباد کی بے توجہی باعث بنی ہے کہ افغانستان کے حکام ،امریکہ اور نیٹو سے یہ مطالبہ کریں کہ افغانستان میں امن عمل کو آگے بڑھانے کے لئے سنجیدہ تعاون کے لئے اسلام آباد پر دباؤ بڑھائیں ۔
اس ملک کے سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ امریکہ اور نیٹو، افغانستان میں بدامنی اور رونما ہونے والی تبدیلیوں کو پاکستان کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس سے قبل کہ اس ملک میں امن و امان کی برقراری کے لئے کوششیں کریں پاکستان کی حکومت کی پالیسویں اور اہداف و مقاصد کے راستے پر گامزن ہیں۔