مسجدالحرام کی راہ میں آل سعود کی رکاوٹیں
سرزمین وحی پر چند اور زائرین بیت اللہ الحرام کے شہید ہونے کے بعد ایک بار پھر حرمین شریفین کا انتظام سنبھالنے اور زائرین کی حفاظت میں آل سعود کی نااہلی ثابت ہوتی ہے۔
چند روز قبل طائف سے ریاض جاتے ہوئے مصری اور سوڈانی عمرہ گذاروں کی بس الٹ گئی تھی جس میں تیرہ افراد جاں بحق اور دسیوں زخمی ہوئے تھے۔ اس کےعلاوہ مکے میں بھگدڑ کے نتیجے میں دسیوں عمرہ گذار زخمی ہوئے ہیں۔ پیر کو سعودی ذرایع نے اعلان کیا تھا کہ مدینہ منورہ میں مسجد النبی کے سامنے ہونے والے بم دھماکے میں دو زائر شہید ہوئے ہیں۔ اس واقعے میں بہت سے زائرین زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں بہت سوں کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ ان واقعات کے بعد انڈونیشیا کے ایک عھدیدار نے زائرین کو تحفظ دلانے میں آل سعود کی نااھلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی حکام کی جانب سے ایام حج میں زائرین کی سلامتی کو نظر انداز کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مسلمانان عالم برہم ہیں۔ انڈونیشیا کے جاواصوبے کے نائب گورنر نے کہا ہے کہ سعودی حکومت کی ایک بنیادی ذمہ داری حجاج کو سکیورٹی اور سیفٹی فراہم کرنا ہے لیکن ریاض کی حکومت گذشتہ برس اپنی اس بنیادی ذمہ داری کو نبھانے میں ناکام رہی ہے۔ اور مسجد الحرام میں کرین گرنے کے سانحے اور سانحہ منا میں ہزاروں حجاج شہید ہوگئے۔
افغانستان کی پارلیمنٹ کے ایک رکن نصراللہ صادقی زادہ نے بھی سرزمین وحی میں حج و عمرہ کرنے والوں کے لئے پیش آنے والے ناگوار واقعات میں اضافہ ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کے حکام کا فریضہ ہے کہ جو لوگ مکہ مکرمہ جاتے ہیں ان کی خدمت کرے نہ یہ کہ زائرین خانہ خدا کو پیش آنے والی مشکلات کو نظر انداز کرے۔ انہوں نے ایرانی عازمین حج کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے پر سعودی عرب پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مکہ مکرمہ کا تعلق سارے عالم اسلام سے ہے اور حکام ریاض پر فرض ہے کہ وہ زائرین خانہ خداکی خدمت کریں خواہ ان کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو۔ انہوں نے کہا کہ آل سعود کے حکام کو چاہیے کہ وہ سیاسی مسائل اور محرکات کے باعث مسلمانوں کو خانہ خدا اور روضہ رسول اللہ کی زیارت سے نہ روکیں ۔ ادھر ایران میں ادارہ حج و زیارات کے سربراہ سعید اوحدی نے کہا ہےکہ ہم گذشتہ چند دنوں میں مکہ مکرمہ اور مسجدالحرام میں بعض حادثات کے شاہد رہے ہیں جن میں تقریبا ستر عمرہ گذار جاں بحق ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعات خطرے کی گھنٹی ہیں کیونکہ اب بھی مکہ مکرمہ اور مسجدالحرام میں حوادث کا امکان بھرپور طرح سے پایا جاتا ہے۔ اوحدی نے کہا کہ سعودی عرب کو اپنا رویہ تبدیل کرکے حج کو عالی شان طریقے سے منعقد کرنے کے لئے اسلامی ملکوں کی توانائیوں اور کامیابیوں سے استفادہ کرنا چاہیے ۔ ادھر اسلامی جمہوریہ ایران کے حج مشن کے سربراہ اور ادارہ حج و زیارات میں ولی فقیہ کے نمائندے قاضی عسگر نے ایک انٹرویو میں آئندہ برسوں کے لئے حج میں نیزایرانی عازمین حج کو بھیجنے کے سلسلے میں مذاکرات اور ایران کے حج کوٹے کے بارے میں سعودی عرب کی جانب سے کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کا ذ کر کرتے ہوئے کہا کہ سعودی حکام سیاسی اھداف کی وجہ سے سرزمین وحی پر آنے کے لئے ایرانی زائرین پر پابندی لگارہے ہیں۔ قاضی عسکر نے کہا کہ ایران کی نظر میں سب سے زیادہ اہمیت حجاج کی سکیوریٹی اور حفاظت کی ہے انہوں نےکہا کہ گذشتہ برس سانحہ منا میں چار سو اکسٹھ ایرانی حجاج شہید ہوئے تھے اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ پہلے عازمین حج کی سکیورٹی کی ضمانت دی جائے اور اس کی ضمانت بھی سعودی عرب کو دینی ہوگی۔ واضح رہے گذشتہ برس چوبیس ستمبر کو حج کے دوران منا میں آل سعود کی نااھلی کی وجہ سے ہزاروں حجاج کرام شہیدہوئے تھے جن میں چار سو اکسٹھ ایرانی بھی شامل تھے، یہ سانحہ رمی جمرات کا راستہ بند کئے جانے کی وجہ سے پیش آیا تھا۔