Jul ۲۵, ۲۰۱۶ ۲۱:۱۱ Asia/Tehran
  • پاکستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں اشرف غنی کا زاویہ نگاہ

افغان صدر محمد اشرف غنی نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو طالبان اور القاعدہ سے بڑی مشکل قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتا اور انہیں تربیت دیتا ہے۔ افغان صدر نے مزید کہا کہ افغان سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے اپنے ملک کی سرزمین پر گیارہ بار طالبان کے سرغنے ملا فضل اللہ اور اس کے ساتھیوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا۔ لیکن پاکستان نے حتی ایک بار بھی اپنی سرزمین پر حقانی گروہ، افغان طالبان کے سابق سرغنوں ملامحمد عمر اور ملااختر منصور پر حملہ نہیں کیا۔

پاکستان کے بارے میں افغان صدر اشرف غنی کے سخت بیانات خصوصا اس بیان سے، کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات افغان حکومت کے لئے طالبان اور القاعدہ سے بھی بڑی مشکل ہیں، اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ کابل میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ دھماکے کے بعد اسلام آباد کے خلاف افغانستان کے موقف میں شدت آگئی ہے۔ اس دھماکے میں سیکڑوں افراد جاں بحق اور زخمی ہوگئے تھے۔

ہفتے کے دن کابل میں روشنی تحریک کی اپیل پر مظاہرہ کرنے والوں کے درمیان دو خودکش حملہ آوروں نے خود کو دھماکوں سے اڑا لیا۔ ان حملہ آوروں نے خود کش جیکٹیں پہن رکھی تھیں۔ اس واقعے کے بعد اشرف غنی نے افغانستان میں عام سوگ کا اعلان کیا۔ افغان صدر محمد اشرف غنی کے بیانات سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ وہ کابل میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے سلسلے میں پاکستان کو قصوروار جانتے ہیں۔افغانستان کی قومی سلامتی کے ادارے نے بھی کہا ہے کہ ہفتے کے دن ہونے والے دھماکے میں جو مواد استعمال کیا گیا وہ صرف حکومتوں کے  پاس ہی ہوتا ہے۔

افغان حکام کے اسی تاثر کے پیش نظر پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ اپنی ٹیلی فونی گفتگو کے دوران، کہ جس سے دونوں ہمسایہ ممالک کی باہمی کشیدگی میں کمی کی نشاندہی ہوتی ہے، اس بات کا اظہار کیا کہ اسلام آباد کابل میں ہونے والے دہشت گردانہ دھماکوں کی تحقیقات کے سلسلے میں مدد دینے کے لئے تیار ہے۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں اشرف غنی کے بیانات سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہےکہ کابل حکومت کے نزدیک پاکستان کا خطرہ افغانستان کے لئے دہشت گردی کے خطرےسے بھی زیادہ بڑا ہے۔

اشرف غنی نے پاکستان پر ایسی حالت میں شدید تنقید کی ہےکہ جب اس بات کی توقع کی جا رہی تھی کہ نواز شریف کے ساتھ کچھ عرصہ قبل ہونے والی ان کی ٹیلی فونی گفتگو کے بعد کابل اور اسلام آباد کی کشیدگی میں کمی آجائے گی۔ لیکن کابل میں دو دن قبل ہونے والے دہشت گردانہ دھماکے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان جاری کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔

کابل میں ہونے والے حالیہ دھماکے سے متعلق افغانستان کی قومی سلامتی کے ادارے کے اعلامئے اور اشرف غنی کے بیانات میں پاکستان کا نام نہیں لیا گیا ہے لیکن پاکستان اچھی طرح جانتا ہے کہ اس اعلامئے اور اشرف غنی کی مراد پاکستان ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے کابل دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اس دھماکے سے متعلق تحقیقات میں مدد دینے کے لئے پاکستان کی آمادگی کا اظہار کیا ہے۔

کابل دھماکے کے سلسلے میں افغانستان کے ردعمل سے ثابت ہوگیا ہے کہ اسلام آباد کے ساتھ قریبی تعاون اوراشتراک عمل کے دوران بھی افغانستان میں ہونے والا ایک دہشتگردانہ دھماکہ، حتی دھماکے میں ملوث عناصر کی شناخت اور تحقیقات شروع ہونے سے بھی قبل، دونوں ملکوں کے تعلقات کو خراب کر سکتا ہے۔

ٹیگس