Jul ۲۸, ۲۰۱۶ ۱۸:۴۶ Asia/Tehran
  • بارزانی کے خوابوں کے مقابلے میں فواد معصوم کی حقیقت پسندی

عراق کے صدر نے اس ملک کے کردستان علاقے کی خودمختاری کے لئے ریفرینڈم کرانے کی بعض کوششوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ہم کرد کس بنیاد پر کردستان نامی ملک تشکیل دینے کی بات کرتے ہیں؟

عراقی کردستان کے سربراہ مسعود بارزانی کچھ کچھ دنوں کے بعد مختلف مواقع پر کردستان کی خودمختاری کے لئے ریفرینڈم کرانے کی بات کرتے ہیں تاہم یہ ایسا موضوع ہے جس پرانھیں کردوں کی بھی حمایت حاصل نہیں اور موجودہ ظرفیت اور اس موضوع کے ناقابل پیشگوئی نتائج کے باعث اس کا خیرمقدم نہیں کیا جاتا-

عراق کی اہم کرد شخصیتیں ہمیشہ بارزانی کے اس موقف کو منفی نگاہ سے دیکھتی رہی ہیں اورعراقی کردستان کی خود مختاری کو اس ملک کے کردوں کے حقوق کے دفاع کے لئے لازمی اور قابل اطمینان ظرفیت کی حامل نہیں سمجھتیں -

کردستان پیٹریاٹیک یونین کے سیاسی شعبے کے سربراہ ملا بختیار نے ابھی حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ عراقی کردستان ڈیموکریٹ پارٹی خود مختاری کے لئے ریفرینڈم کرانے کے بارے میں کوئی واضح نقطہ نظر رکھے بغیرہی، اس کے انعقاد پر اصرار کرتی ہے-

اس وقت دوسری کرد شخصیت نے بھی کہ جوعراق میں صدر کے عہدے پر فائز ہے ، کردستان ملک کی تشکیل کی بحث چھیڑنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس موضوع میں ، انفرااسٹکچرس، مملکت کی تشکیل کے میکانیزم ، اس طرح کے ملک کو چلانے،اوراس کے خارجہ تعلقات و جمہوریت کے اصولوں پر بھی توجہ دینی چاہئے-

عراق کے صدر فواد معصوم نے روزنامہ " کوردستانی نوی " اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ عراق سے کردستان کا الگ ہونا اور دوسرے ملک میں شامل ہونا ایک المیہ ہوگا- سیاسی بحران کی وجہ سے عراقی کردستان کی موجودہ صورت حال کے باعث پیدا ہونے والی اقتصادی بدحالی اور اس علاقے کے داعش کے خطرات سے الجھے ہونے کے سبب مسعودبارزانی کی خواہشات کے عملی جامہ پہننے کی امیدیں ماند پڑ گئی ہیں -

عراقی کردستان کا علاقہ تقریبا ایک سال سے سیاسی بے چینی کا سامنا کر رہا ہے - اس علاقے میں مسعود بارزانی کی قانونی مدت صدارت انیس اگست دوہزارپندرہ کو ختم ہونے کے بعد سے سیاسی واقتصادی بدحالی نظرآرہی ہے اورگاہےبہ گاہے ہونے والے احتجاجی مظاہرے اس کے شعلوں کو مزید بھڑکاتے رہتے ہیں-

گذشتہ تقریبا ایک برس سے عراقی کردستان میں داخلی اختلافات بڑھ گئے ہیں اور حالات مزید خراب ہوگئے ہیں- مسعود بارزانی کا دورصدارت ختم ہونے اوران کی صدارت کا مسئلہ حل نہ ہونے کے بعد عراقی کردستان کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف کرد گروہوں کے درمیان گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں-

اس موضوع سے پتہ چلتا ہے کہ کردستان کی خودمختاری کے لئے ریفرینڈم کرانے کے معاملے میں بارزانی کو کردوں کی سو فیصد حمایت حاصل نہیں ہے جبکہ عراق کے سلسلے میں عالمی اور علاقائی مواقف بھی ایک پرچم اورآئین کے تحت اس ملک کی ارضی سالمیت اور متحدہ عراق کی حمایت پر مبنی ہیں-

عراق کی مرکزی حکومت سے الگ ہونے کے سلسلے میں مستقبل کے کردستان کے جمہوری اصولوں اورخارجہ تعلقات کے بارے میں فواد معصوم کی تشویش بخوبی بیان ہوئی ہے -عراقی کردستان کی خودمختاری کے لئے ریفرینڈم کرائے جانے کا موضوع سامنے آنے پر داخلی اور بیرونی مواقف ، مسعود بارزانی کے لئے راستہ ہموار نہیں کریں گے کہ جس سے وہ اپنے خواب کی تعبیر پا سکیں -

مسعود بارزانی نے ایسی حالت میں خودمختاری کا منصوبہ ناممکنات کی بنیاد پرتیار کیا ہے کہ عراق کی موجود صورت حال کردوں کے لئے مناسب موقع ہے کہ کرد، عراق کے نئے آئین کی تیاری میں کردار کے حامل تھے اور وہ اس کے تناظر میں اپنے حقوق کو تلاش کر سکتے ہیں -

جلال طالبانی کے بقول کردوں نے عراق کے آئین کے حق میں ووٹ دیئے ہیں اور اس کی پیروی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور پنچانوے فیصد کردوں نے عراقی آئین کے حق میں ووٹ  دیئے ہیں کہ جس میں بغداد کی مرکزی حکومت کی پیروی میں فیڈرل نظام پر تاکید کی گئی ہے-

ٹیگس