ایف بی آئی کے سربراہ کی طرف سے انتباہ
مستقبل میں برسلز اور پیرس کیطرح دیگر یورپی علاقوں میں دھماکے ہوں گے۔
امریکی ادارے ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی نے شام اور عراق میں داعش کی شکست کے منفی نتائج کیطرف اشارہ کرتے ہوئے مغربی ممالک کو خبردار کیا ہے۔
ایف بی آئی کے سربراہ نے پیشنگوئی کی ہے کہ شام اور عراق میں داعش کے زیر قبضہ علاقوں سے داعش کی واپسی اس بات کا باعث بنے گی کہ وہ دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیل جائیں ۔
جیمز کومی نے مشرق وسطی اور دنیا بھر میں داعش دھشت گردوں کے پھیلنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے منظر نامے کیطرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ اس بار دھشت گرد پہلے سے بھی زیادہ شدت کےساتھ دنیا بھر میں منتشر ہوجائیں گے۔
ایف بی آئی نے یورپی ممالک میں پیش آنے والے واقعات کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مستقبل میں برسلز اور پیرس کیطرح دیگر یورپی علاقوں میں دھماکے ہوں گے۔
ایف بی آئی کے سربراہ نے دھشت گردوں کے دنیا بھر میں پھیل جانے اور اس سے دھشت گردی میں اضافے سے اس لئے خبردار کیا ہے کیونکہ مغربی ممالک کے سیکورٹی ادارے اس بات کےقائل ہیں کہ شام اورعراق میں داعش کے ساتھ ملکر دھشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث افراد کی ایک بہت بڑی تعداد یورپ سے تعلق رکھتی ہے اور جب ان دھشت گردوں کو عراق اور شام میں پسپائی اختیار کرنا پڑی تو وہ اپنے اپنے ممالک میں واپس جائیں گے ۔
یورپ کی پولیس یورو پول نے جو اعداد و شمار جاری کیئے ہیں، اسکے مطابق شام اورعراق میں داعش کے ساتھ ملکر جنگی کارروائیوں میں مشغول یورپی شہریوں کی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ ہے، ان میں ایک تہائی یعنی تقریبا پندرہ سے اٹھارہ سو جنگجو یورپ واپس پہنچ گئے ہیں۔
عراق اور شام سے واپس آنے والے ان انتہاپسندوں کی نظریاتی اور فوجی تربیت نیز دھشت گردانہ ماہیت کی وجہ سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ دھشت گردانہ کارروائیاں انجام دیں۔
2015 میں پیرس اور 2016 میں برسلز اور نیس کا حالیہ دھشت گردانہ حملہ اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ داعش مغربی مفادات پر حملہ کرنے میں سنجیدہ اور پرعزم ہے اور اسکے لئے وہ اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لا سکتا ہے۔
یورپی ممالک میں دھشت گردانہ حملوں کا مسئلہ اب امکان سے حقیقت کا روپ دھار رہا ہے، کیونکہ گذشتہ عرصے میں مغربی ممالک میں جو دھشت گردانہ کارروائیاں انجام پائی ہیں، اس تناظر میں مستقبل میں بھی دھشت گردانہ حملوں کو خارج از امکان نہیں سمجھا جاسکتا، یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک کے حکام بھی دھشت گردانہ حملوں کے بارے میں برملا اظہار کررہے ہیں۔
مثال کے طور پر فرانس کے وزیراعظم مانوئل والس نے اعلانیہ کہا ہے کہ فرانس کے عوام کو دھشت گردانہ حملوں کے ہمراہ زندگی گزارنے کا عادی ہونا ہوگا
یورپی ممالک کے حکام اور سیکورٹی ادارے ایسے عالم میں دھشت گردانہ حملوں میں اضافے کی بات کررہے ہیں کہ بعض بڑے یورپی ممالک منجملہ فرانس اور برطانیہ نے امریکہ کے ساتھ ملکر شام اور عراق میں تکفیری دھشت گردوں، خاص کر دھشت گرد گروہ داعش کو وجود میں لانے اور انہیں فوجی اور مالی حوالے سے مضبوط کرنے میں اہم اور موثر کردار ادا کیا ہے۔
یہ ان ممالک کی کارکردگی کا ثمر اور نتیجہ ہے جو مستقبل میں یورپ میں تکفیریت اور دھشت گردی میں اضافے کی صورت میں یورپی ممالک میں ظاہر ہوگا۔
مغربی ممالک اس چیز کا تصور بھی نہیں کررہے تھے کہ ان کی طرف سے شام میں دھشت گردوں کو مضبوط بنانے کے لئے کی جانے والی مدد ایک دن خود ان کے لئے مشکلات کا باعث بنے گی اور جن دھشت گردوں کو وہ مضبوط کررہے ہیں ایک دن وہ اپنے حامیوں کو بھی اپنی دھشت گردی کا نشانہ بناسکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بعض مغربی ممالک نے دھشت گردی کے جو بیج مشرق وسطی میں کاشت کیئے تھے، اب وہ اسکی فصل کاٹ رہے ہیں۔
البتہ امریکہ بھی اس دوران داعش کے حملوں سے محفوظ نہیں رہا، دو دسمبر 2015 میں امریکی ریاست کیلفورنیا کے علاقے سن برناندینو میں دھشت گردانہ حملہ ان دو افراد کے ہاتھوں انجام پایا جو اپنے آپ کو داعش تنظیم کا رکن قرار دیتے تھے۔
اب امریکی پولیس ایف بی آئی کے سربراہ تکفیری دھشت گردی کیوجہ سے یورپ کے تاریک مستقبل سے خبردار کرتے ہوئے اعلان کررہے ہیں کہ انتہاپسندوں اور دھشت گردوں کے آئندہ حملوں کے لئے یورپ کو تیار رہنا چاہے۔
دھشت گردی میں اضافے کی بڑی وجہ دھشت گردی کو ایک سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنا اور اسے اچھی اور بری دھشت گردی میں تقسیم کرنا ہے۔
مغربی ممالک اور انکے عرب اتحادیوں نے تکفیری دھشت گردی کا مقابلہ کرنے کی بجائے صرف اپنے مفادات کے حصول کے لئے تکفیری دھشت گردوں سمیت بیسیوں دیگر دھشت گرد گروہوں کو مضبوط کیا ہے۔
اب یہ گروہ کافی حد تک مضبوط ہوچکے ہیں اور امریکہ اور یورپ میں دھشت گردانہ اقدامات انجام دے سکتے ہیں، حالانکہ اس سے قبل یورپ میں اسطرح کے دھشت گردانہ حملوں کا امکان بہت کم تھا۔