اسرائیل کی جارحیتوں میں شدت اور محمود عباس کے سازباز اقدامات
تنظیم آزادی فلسطین کی مجلس عاملہ کے سیکریٹری جنرل صائب عریقات نے کہا ہے کہ فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس کی پیرس میں فرانس اور امریکہ کے وزرائے خارجہ سے الگ الگ ملاقات کا اصلی مقصد یہ تھا کہ فرانس اور امریکہ علاقے کے امن عمل کی بحالی کے لیے کوشش کریں۔
محمود عباس نے فرانس اور امریکہ کے وزرائے خارجہ سے ملاقات میں کہا کہ فلسطین اورعرب دنیا بقول ان کے قیام امن کے لیے ایک بار پھرسفارتی کوششیں کرنے کے لیے تیار ہے۔
صائب عریقات نے کہا کہ امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے بھی کہا ہے کہ صدر باراک اوباما علاقے کے امن عمل کو بحال کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ مشرق وسطی میں سازبازعمل کے احیاء کے لیے کوششیں ایک ایسے وقت میں کی جا رہی ہیں کہ جب حالیہ مہینوں کے دوران فلسطینیوں پراسرائیل کے مظالم اور جرائم میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔
دو سو تیس سے زائد فلسطینیوں کو شہید، فلسطینیوں کے سیکڑوں رہائشی گھروں کو مسمار کرنا اور سیکڑوں ہیکٹراراضی کو ضبط کر لینا، دریائے اردن کے مغربی کنارے میں دو ہزار سولہ کی ابتدا سے لے کر اب تک صیہونی جرائم کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔
بلاشبہ فرانس کے منصوبے سمیت مشرق وسطی میں سازباز کے منصوبے کہ جن میں فلسطینیوں کے بہت سے حقوق کو نظرانداز کیا گیا ہے، فلسطینیوں کے خلاف اپنے جرائم اور مظالم کو تیز کرنے میں صیہونی حکومت کو مزید گستاخ اور جری کرنے کا سبب بنے ہیں۔
واضح رہے کہ فرانس کے حالیہ منصوبے سمیت بعض یورپی ممالک اورامریکہ کی جانب سے مشرق وسطی کے نام نہاد امن منصوبوں میں، اسرائیلی حکومت کو ایک یہودی حکومت کے طورپرتسلیم کرنا، آوارہ وطن فلسطینیوں کو ہرجانہ دے کر ان کی وطن واپسی کے حق کو ختم کرنا اور انھیں ان علاقوں میں بسانا کہ جہاں پر وہ اس وقت زندگی گزار رہے ہیں، شامل ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب فلسطینی مزاحمت کو غیرمسلح کرنا فرانس کے پیش کیے گئے منصوبے کا حصہ ہے۔
صیہونی حکومت کی جیلوں میں قید فلسطینیوں اور ان کی سرنوشت کا مسئلہ بھی ان امور میں شامل ہے کہ جن کا فرانس کے امن منصوبے میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ مغربی حکومتوں کے توسط سے سازباز کا سازشی عمل کچھ اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ جو بظاہر امن پسندانہ اقدامات کی آڑ میں صیہونی حکومت کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں زمین ہموار کرنے کے لیے ہو۔
مشرق وسطی میں سازباز کا سازشی منصوبہ اس وجہ سے کہ یہ صرف مغربی حکومتوں اور صیہونی حکومت کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، فلسطین کا بحران حل کرنے کی توانائی نہیں رکھتا ہے۔ اس لیے یہ منصوبہ پہلے ہی سے رائے عامہ کے نزدیک شکست خوردہ منصوبہ سمجھا جاتا ہے۔
یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب حالیہ مہینوں کے دوران مغربی حلقوں کی جانب سے سازباز کےعمل کو دوبارہ شروع کرنے کے سلسلے میں باتیں کہی جا رہی ہیں۔ اس پروپیگنڈے کے بعد فلسطینی انتظامیہ کے بعض عہدیداروں نے صیہونی حکومت کے ساتھ سازباز مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے کے لیے آمادگی کا اعلان کیا ہے۔
یہ ایسے حالات میں ہے کہ صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اسرائیل کی سب سے زیادہ انتہا پسند کابینہ تشکیل دی ہے کہ جو مشرق وسطی کے امن مذاکرات کے تابوت میں آخری کیل سمجھی جاتی ہے اور اس نے اس بات کو پہلے سے زیادہ واضح کر دیا ہے کہ صیہونی حکومت امن مذاکرات اور امن عمل پر بالکل یقین نہیں رکھتی ہے۔
اس بنیاد پرسازباز مذاکرات کے موقع پراوران کے بعد دنیا والے صیہونی حکومت کے توسیع پسندانہ اور شدت پسندانہ پالیسیوں کے نئے دور کا مشاہدہ کرتے ہیں اور فلسطینی علاقوں میں صیہونی بستیوں کی تعمیر میں اضافے اور حالیہ مہینوں کے دوران فلسطینیوں کو کچلنے اور ان کی وسیع پیمانے پرگرفتاریوں کا اسی تناظر میں جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
یہ امر اس بات کو بیان کرتا ہے کہ سازباز کا عمل صیہونی حکومت کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے ایک حربہ اور وسیلہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں سازباز کے عمل کو جاری رکھنے پر تاکید کا مطلب فلسطینی کازکو مزید نقصان پہنچانے کےعلاوہ اورکچھ نہیں ہے اور یہ ایسی بات ہے کہ جس پرفلسطینیوں نے وسیع پیمانے پر احتجاج کیا ہے۔