حکومت بحرین کی حقائق سے فرار کی کوشش
بحرین کے حکام، جو اپنے ملک کے شہریوں کے پرامن مظاہروں کو کچلنے کی جارحانہ پالیسی اختیار کرنے کے باوجود بے بس ہو گئے ہیں، اب غلط، جھوٹا اور بے بنیاد نیز زہریلا پروپیگنڈہ کر کے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایران کی مداخلت کی وجہ سے بحرین میں مسائل میں پیدا ہوئے ہیں۔
اس سلسلے میں کل بحرین کے دارالحکومت منامہ میں حقوق و امن کو مضبوط بنانے کے لئے عرب ملکوں کی جدت عمل کے دعوے کے تحت ایک اجلاس بھی منعقد ہوا۔ عرب ملکوں کے شہریوں کی سلامتی کے لئے ایران سے لاحق خطرات کے زیر عنواں اس اجلاس کے انعقاد کی خبر کا ہفتے کے روز اعلان کیا گیا۔اس اجلاس کے شرکاء نے ایران پر الزام لگایا کہ وہ بحرین اور دیگر عرب ملکوں میں مداخلت کر رہا ہے۔ انھوں نے عرب ملکوں کے اندرونی مسائل میں ایران کی مداخلت اور اس سے لاحق خطرات کا مقابلہ کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔ لندن سے شائع ہونے والے اخبار الشرق الاوسط کی ویب سائٹ نے منامہ کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس اجلاس کے شرکاء نے عرب ملکوں کے داخلی مسائل میں ایران کی مداخلت رکوانے کے لئے مشترکہ اقدام اور ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا ہے اور تاکید کی ہے کہ ایران، عرب ملکوں کا امن و استحکام کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ عرب انسانی حقوق فیڈریشن کی جانب سے تشکیل دیئے جانے والے اس ایک روزہ اجلاس میں خلیج فارس تعاون کونسل کے مختلف عرب ملکوں کے اراکین پارلیمنٹ کی وسیع شرکت سے تین اہم نشستیں منعقد ہوئیں۔ ان نشستوں میں عرب ملکوں کی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اداروں کے اراکین، انسانی حقوق سے متعلق کارکنوں اور مختلف علمی شخصیات نے بھی شرکت کی۔ عرب ملکوں کے داخلی مسائل میں ایران کی مداخلت کا دعوی، درحقیقت اس غیر جمہوری طریقے پر دفاعی ردعمل ہے جو سالوں سے بحرین اور سعودی عرب جیسے ملکوں کی قدامت پسند حکومتوں کی جانب سے بدستور جاری ہے۔ ان ملکوں کے حکمراں، اپنے اقتدار کا تحفظ کرنے کے لئے ہر طرح کی تبدیلیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ دہشت گرد گروہوں کی حمایت، انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی، علاقے میں غیر منطقی اور تفرقہ انگیز رویہ اور صیہونی حکومت سے قریب ہونے اور اس کے ساتھ تعاون، ایسے طریقے ہیں جو ان ملکوں کے حکمرانوں نے عرب ملکوں کے عوام کو تحفظ فراہم کرنے اور ایران کی مداخلت اور اس سے لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے اختیار کئے ہیں جبکہ ان حکمرانوں نے پورے علاقے کو آگ میں جھونک دیا ہے اور ایران سے لاحق خطرے کا بے بنیاد بہانہ بناتے ہوئے علاقے میں بدامنی پھیلادی ہے۔ ایسی صورت حال میں یہ ممالک، آزادی و قومی ہم فکری کا عنوان دے کر اجلاس منعقد کر رہے ہیں اور یہ ایسی حالت میں ہے کہ ان ملکوں کے حکمرانوں نے علاقے میں پائے جانے والے حقیقی خطرات سے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنی قوموں کی سلامتی کو بھی وہابیت کی ترویج اور فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔ ان کی ایسی پالیسیوں کے نتیجے میں ہی داعش جیسے دہشت گرد گروہ نے جنم لیا ہے جس نے پورے علاقے میں دہشت گردی و انتہا پسندی پھیلا رکھی ہے اور وہ اسلامی اقدار کو پامال کر رہا ہے نیز اس نے اسلامی اتحاد کو پاش پاش کر دیا ہے۔ قومی سلامتی، کبھی بھی ہتھوڑے چلا کر اقتدار پر براجمان ہو کر حاصل نہیں ہوتی بلکہ اسلامی ملکوں میں انسانی سلامتی کے تحفظ کے لئے تمام قومی توانائیوں کو سرگرم بنانے اور تمام گنجائشوں سے استفادہ کئے جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ یہ ایک ایسا عنصر ہے جو بحرین اور سعودی عرب جیسے ملکوں کی قبائلی حکومتوں میں نہیں پایا جاتا۔ ظاہر ہے کہ نمائشی اجلاسوں کے انعقاد سے اس فقدان کا ہرگز پتہ نہیں لگایا جاسکتا یا کھوئے ہوئے امن و سلامتی کی تقویت کی راہ کو تلاش نہیں کیا جاسکتا۔