مسجدالاقصی کو نذر آتش کئے جانے کا المیہ
اکیس اگست سنہ انیس سو انہتر کو مسلمانوں کے قبلۂ اول اور دنیا کے تیسرے بڑے مقدس مقام مسجد الاقصی کو آسٹریلوی نژاد صیہونی مائیک روہان نے نذر آتش کر دیا۔
اس برس فلسطینی عوام اور اسلامی مقدسات پر صیہونی حکومت کے مظالم کھل کر سامنے آئے ہیں اور سینتالیس برس کے بعد بھی صیہونی اور ان کے ہم خیال افراد اسی فکر کے حامل ہیں۔ مسجد الاقصی کو آگ لگائے جانے سے قبل سنہ انیس سو سڑسٹھ کی چھ روزہ جنگ کے دوران صیہونی حکومت نے بیت المقدس شہر پر قبضہ کر لیا۔ اس تاریخی شہر پر قبضے کے بعد صیہونیوں نے ہمیشہ بیت المقدس شہر اور مسجد الاقصی کے اسلامی تشخص کو مٹانے کی کوشش کی۔ لیکن ان کو فلسطینیوں کی انتفاضہ اور استقامت کا سامنا کرنا پڑا۔ مسجدالاقصی میں تمام فلسطینیوں کے داخلے کی روک تھام، بیت المقدس شہر اور مسجد الاقصی کے اطراف میں وسیع پیمانے پر کھدائی، اس اسلامی شہر کی آبادی کا تناسب بگاڑنے کے لئے صیہونی بستیوں میں توسیع، مسلمانوں کے قبلۂ اول کی مکانی اور زمانی تقسیم کی سازش قبضے کو جاری رکھنے پر مبنی صیہونی حکومت کے بعض ایسے اقدامات ہیں جو اس نے مسجد الاقصی کو نذر آتش کئے جانے کے بعد انجام دیئے ہیں۔
صیہونی حکومت نے مسجدالاقصی اور اسلامی تاریخ و تمدن سے اسلامی آثار کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی یہ کوشش انتفاضہ قدس کی تشکیل پر منتج ہوئی۔ یکم اکتوبر سنہ دو ہزار پندرہ سے بیت المقدس کے مختلف علاقوں اور مغربی کنارے کے مختلف شہروں میں اسرائیل کے مسجدالاقصی مخالف اقدامات کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ انتفاضہ قدس کے باعث، کہ جو صیہونیوں کی توسیع پسندی کے مقابلے میں بہت ہی کارگر ہتھیار ہے، مسجد الاقصی کی زمانی اور مکانی تقسیم پر مبنی سازش ناکام ہو کر رہ گئی ہے۔
اسلامی آثار اور مساجد کا انہدام غاصب اسرائیلی حکومت کی ذات میں پوشیدہ ہے ۔ اسلامی تعاون تنظیم اور دوسری علاقائی اسلامی تنظیموں کے موجود ہونے کے باوجود صیہونی حکومت نے اسلامی آثار کے ساتھ اپنی دشمنی میں ہمیشہ اضافہ کیا ہے۔
اسلامی تعاون تنظیم کو ، کہ جس کا نام پہلے اسلامی کانفرنس تنظیم تھا، مسجد الاقصی کو آگ لگائے جانے والے واقعے کے بعد پچیس ستمبر سنہ انیس سو انہتر کو وجود میں لایا گیا۔ یہ تنظیم صیہونی حکومت کو اس کے اقدامات سے روکنے میں ناکام رہی ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کا بہت ہی کمزور رویہ اور بعض دوسرے عرب ممالک کے مواقف کی وجہ سے صیہونی حکومت مساجد اور اسلامی آثار کے انہدام کے سلسلے میں زیادہ گستاخ ہوگئی ہے۔
الخلیل شہر میں مقبوضہ سرزمینوں کے تحقیقاتی مرکز کے اعداد و شمار کے مطابق صیہونی حکومت نے سنہ انیس سو سڑسٹھ سے اب تک اڑتالیس سے زیادہ مساجد منہدم کی ہیں اور ان کو آگ لگائی ہے۔
صیہونی حکومت کے اسلام مخالف اقدامات مقبوضہ فلسطینی سرزمینوں تک محدود نہیں ہیں دوسرے اسلامی علاقوں میں بھی مساجد اور اسلامی آثار و تمدن کو نابود کیا جا رہا ہے۔ شام اور یمن سمیت اسلامی ممالک میں اسلامی اور مذہبی آثار کو نابود کرنے والوں کا اقدام صیہونیوں کے اقدامات سے میل کھاتا ہے۔ شام میں دہشت گرد گروہ داعش کے ہاتھوں اور یمن میں سعودی عرب کے حملوں میں مساجد اور مذہبی آثار کو نابود کیا جا رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ وہی صیہونی سوچ اور پالیسی ہے جس کو دہشت گرد گروہ داعش اور آل سعود عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔
اسلامی ممالک میں اسلامی اور مذہبی آثار کو نیست و نابود کرنے کی جڑ صیہونی افکار ہیں اور اسلامی تعاون تنظیم کی جانب سے موثر اقدام نہ کئے جانے کی وجہ سےاس سوچ اور پالیسی پر شام، یمن ، بحرین اور دوسرے اسلامی ممالک میں صیہونیوں کے پٹھو عملدرآمد کر رہے ہیں۔