میانمار کے صدر کا دورہ ہندوستان
میانمار کے صدر یو ہتین کیاؤ کا دورہ ہندوستان، دونوں ملکوں کے تعلقات میں نئے باب کے آغاز کا آئینہ دار ہے۔
میانمار کے حالیہ انتخابات اور ان انتخابات میں مسسز سوچی کی زیر قیادت نیشنل لیگ پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد اس ملک کے کسی اعلی عہدیدار کا یہ پہلا دورہ ہندوستان ہے۔ میانمار کے صدر کے دورہ ہندوستان میں اس ملک کے کئی وزراء اور اعلی عہدیدار ہمراہی کر رہے ہیں جس سے اس دورے کی خاص اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ انّیس سو سینتالیس میں ہندوستان کی آزادی کے بعد سے میانمار کے ساتھ اس کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں۔ میانمار میں جب فوجی حکومت قائم تھی اور مغربی ملکوں نے اس ملک کا بائیکاٹ کر رکھا تھا تو اس وقت بھی تمام شعبوں میں میانمار کے ساتھ ہندوستان کا تعاون جاری تھا۔ میانمار، بین الاقوامی سمندروں تک دسترسی کے اعتبار سے اپنی ممتاز جغرافیائی پوزیشن اور توانائی کے ذخائر رکھنے کی بناء پر ہمیشہ علاقائی اور مغربی ملکوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا ہے۔ میانمار میں فوجی دور حکومت میں مغربی کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں کی وجہ سے یہ ملک، اپنے پڑوسی ملکوں خاص طور سے چین اور ہندوستان کے ساتھ تعاون کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے پر مجبور تھا مگر حالیہ برسوں اور خاص طور سے اس ملک میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے بعد مغربی ملکوں منجملہ امریکہ نے اس ملک کے خلاف پابندیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے میانمار میں اپنا اثرورسوخ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور امریکی صدر بارک اوباما نے دو بار میانمار کا دورہ بھی کیا ہے۔ اس رو سے جمہوریت کے لئے نیشنل لیگ کی زیر قیادت برسر اقتدار آنے والی نئی حکومت، پڑوسی ملکوں خاص طور سے ہندوستان جیسے ملکوں کو، جنھوں نے حکومت میانمار کے خلاف پابندیوں کے دور میں اس ملک کی بہت زیادہ مدد کی ہے، اس بات کا یقین دلانے کی کوشش کر رہی ہے کہ نئے دور حکومت میں بھی ماضی کی مانند اسٹریٹیجک تعاون جاری رہے گا۔ ہندوستان اور میانمار سمیت بنگلہ دیش، سری لنکا، تھائی لینڈ، بھوٹان اور نیپال پر مشتمل بیمسٹک گروپ، دنیا کی بیس فیصد سے زائد آبادی پر مشتمل ہے بنابریں اس گروپ کے اہم ترین رکن ملک کی حیثیت سے ہندوستان، مشرق سے متعلق اپنی پالیسیوں کے دائرے میں اس علاقے کے مختلف ملکوں کے ساتھ مختلف شعبوں منجملہ نقل و حمل، تجارت اور سیاحت کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ حکومت ہندوستان کے نقطہ نظر سے اس تعاون کے فروغ سے سرحدی علاقوں خاص طور سے ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں میں امن کے قیام میں خاصی مدد ملے گی۔ انّیس سو ساٹھ سے حکومت ہندوستان کی سب سے بڑی مشکل، ناگالینڈ اور میزورم کے باغیوں کا مسئلہ رہا ہے۔ حکومت ہندوستان کا خیال ہے کہ ان باغیوں کو چین کے بعض گروہوں کی حمایت حاصل ہے اس رو سے حکومت میانمار نے حکومت ہندوستان کو ہمیشہ اس بات کا یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ وہ علیحدگی پسندوں کو کسی بھی طرح کی مدد پہنچنے کی روک تھام کرنے کی کوشش کرے گی۔ انّیس سو سڑسٹھ میں ہندوستان اور میانمار کی حکومتوں کے درمیان مشترکہ سرحدوں کے بارے میں مفاہمت ہوئی ہوئی تھی کہ جس کے نتیجے میں ان دونوں ملکوں کی مشترکہ سرحدوں پر امن قائم ہو گیا تھا۔ بہرحال سیاسی مبصرین، اس اعتبار سے کہ میانمار کے ساتھ چین اور ہندوستان ، دونوں ہی ملکوں کے روائتی تعلقات قائم رہے ہیں، یہ خیال بھی ظاہر کرتے ہیں کہ میانمار میں رونما ہونے والی نئی تبدیلیوں اور برسر اقتدار آنے والی نئی حکومت، ہندوستان اور چین کے تعلقات میں توازن بھی قائم کرنا چاہتی ہے۔