شام میں رونما ہونے والی تبدیلیاں، یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کا محور
یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے لگزمبرگ میں شام کی صورتحال کے جائزے کے مقصد سے ایک اجلاس تشکیل دیا ہے-
فرانس ، برطانیہ اور جرمنی نے اس اجلاس میں شرکت کی تاکہ یورپی یونین کے دیگر رکن ملکوں کو شام میں روس کے فضائی حملوں کی مذمت کے لئے قانع کرسکیں اور شام کے خلاف نئی پابندیاں عائد کئے جانے کے لئے حالات فراہم کریں-
اسی سلسلے میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی مجوزہ قرارداد کے مسودے کی بناء پر طے یہ پایا تھا کہ حلب کے حملوں میں ملوث ہونے کے باعث، شام کے تقریبا بیس حکام کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی حمایت کریں- بظاہر برطانیہ اور فرانس نے سلامتی کونسل میں شام کے خلاف مزید پابندیوں کی قرارداد کو ویٹو کئے جانے سے لاحق تشویش کے سبب اس پابندی کے فیصلے کو لگزمبرگ میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں پیش کیا ہے-
اس اجلاس میں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فڈریکا موگرینی نے کہا ہے کہ شام کے سلسلے میں یورپی یونین کے اراکین کا موقف یہ ہے کہ اس ملک میں فوری جنگ بندی کا قیام عمل میں لایا جائے- لگزمبرگ اجلاس ایسے میں منعقد ہوا ہے کہ شام کے بحران کے حل کے لئے سفارتی اقدامات، اس ملک میں حالیہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کے وقت سے تعطل کا شکار ہیں-
ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ یورپی یونین اور امریکہ اس اجلاس کے انعقاد کے ذریعےاس کوشش میں ہیں کہ حلب پر فضائی اور زمینی حملے بند کرنے کے لئے روس اور شام کی حکومت کے خلاف دباؤ بڑھائیں- اسی سلسلے میں اس اجلاس میں شام کے بعض حکام پر پابندی اور حلب پر شام اور روس کے فضائی حملوں کے دوران ان ملکوں کے جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے جیسے بے بنیاد دعوے کئے گئے ہیں ساتھ ہی اس یونین کے وزرائے خارجہ یہ بھی چاہتے تھے کہ روس اوراسکے اتحادیوں پر بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کریں-
شامی عوام کی سرنوشت کے بارے میں یورپی ممالک ایسے میں یہ اظہار تشویش کر رہے ہیں کہ شام کے بحران پر ایک نظر ڈالنے سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ان ممالک نے اپنے عرب اتحادیوں کے شانہ بشانہ مل کر، شام کی داخلی جنگ میں توسیع اور اس جنگ کو وجود میں لانے میں اصلی کردار ادا کیا ہے-
درحقیقت شام کے بحران کے وجود میں آنے کا سبب حکومت کے خلاف شام کے عوام کا احتجاج یا ان کی ناراضگی نہیں ہے بلکہ یہ بحران مغربی ملکوں اور ان کے عرب اتحادیوں نیز ترکی کی سازشوں کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے- ان ممالک نے گذشتہ چھ برسوں میں شام کے عوام کی مدد کے بہانے سے شام میں حکومت مخالفین اور مختلف دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانے اور ان کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے-
یہ گروہ یا تو نام نہاد اعتدال پسند گروپ ہیں یا داعش، جبھۃ النصرہ، جیش الاسلام اور احرار الشام جیسے تکفیری دہشت گرد گروہوں پر مشتمل ہیں- مغربی ممالک اور ان کے عرب اتحادی ممالک تکفیری دہشت گردوں کے مقابلے کے بجائے اپنے مدنظر اہداف کے حصول کے درپے ہیں اور ان دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانے اور ان کو مضبوط بنانے میں ان ممالک نے اہم رول ادا کیا ہے جس کے نتیجے میں آج یہ دہشت گرد گروہ ایک نمایاں طاقت بن کر ابھرے ہیں کہ جن کا اس سے قبل تک وجود میں آنا شاید نا قابل تصور تھا-
ساتھ ہی یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یورپی ملکوں کے بھی پانچ ہزار افراد آسانی کے ساتھ ان ملکوں سے شام آئے اور دہشت گرد گروہوں میں شامل ہوگئے- فرانس ، بلجیم اور جرمنی میں دوہزار پندرہ اور سولہ میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کے بعد ، یورپی ملکوں میں خطرے کی گھنٹی سنائی دینے لگی اور اب یہی ممالک دہشت گردی کے خلاف ٹھوس مقابلہ کرنے اور شام کے بحران کے سیاسی حل کے دعویدار بن گئے ہیں-
شام کے بحران کے حل اور اس ملک میں فوری جنگ بندی کےقیام پر موگرینی کی تاکید سے اس امرکی غمازی ہوتی ہے کہ یہ ممالک نہ صرف شام کے بحران کے سیاسی راہ حل کے عملی ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں بلکہ اس سے ان کا مقصد اپنے اہداف کو عملی جامہ پہنانا ہے - اور یہ بات واضح ہے کہ جب تک شام کے بحران کے سلسلے میں مغربی ملکوں کا یہ نظریہ رہے گا اس وقت تک ان ممالک کی جانب سے اس بحران کے سیاسی حل اور دہشت گرد گروہوں سے ٹھوس مقابلے کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی-