ایران اور یورپی یونین کے تعلقات
یورپی یونین میں خارجہ پالیسی شعبے کی سربراہ فیڈریا موگرینی نے سنیچر کو ایران کا دورہ کرنے کےبعد کہا ہے کہ ایران مشرق وسطی کے بحرانوں کو حل کرنےمیں کلیدی کردار کا حامل ہے۔
یورپی یونین میں خارجہ پالیسی شعبے کی سربراہ فیڈریا موگرینی نے سنیچر کو ایران کا دورہ کرنے کےبعد کہا ہے کہ ایران مشرق وسطی کے بحرانوں کو حل کرنےمیں کلیدی کردار کا حامل ہے۔
ایران اور یورپی یونین کے درمیان جامع تعاون کا ھدف حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن اس میں کچھ پریشانیاں بھی ہیں۔ واضح سی بات ہے کہ ایران کے ساتھ یورپی یونین کے تعاون کے لئے کچھ امور ضروری ہیں جن میں یورپی یونین کے لئےخود مختار اور شفاف ہونا نہایت ضروری ہے۔اس سلسلے میں بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن میں علاقے میں امن و سکیورٹی برقرار قائم کرنے سے لے کر طویل مدت اقتصادی تعاون بھی شامل ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ یورپی یونین کا رویہ اور سلوک نیز یہ کہ وہ کس حد تک خود مختار ہونے کا ثبوت دیتا ہے یہ ساری چیزیں علاقے کے مسائل سے متعلق یورپی یونین اور ایران کے تعلقات کے عملی شکل اختیار کرنے میں موثر واقع ہونگی ۔
ایران اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کا ایٹمی معاہدہ دوطرفہ تعاون بڑھانے اور عالمی مسائل حل کرنے کے لئے ایک اچھا معاہدہ ہے البتہ جامع مشترکہ ایکشن پلان پر مکمل طرح سے عمل درآمد مد مقابل کی کارکردگی پر منحصر ہے۔اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ مد مقابل کو منجملہ یورپی یونین کو اپنے تمام وعدوں پر قائم رہنا چاہیے اور ان پر مکمل طرح سے عمل کرنا چاہیے۔
فیڈریکا موگرینی نے ایرانی حکام کے ساتھ مذاکرات میں اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ایٹمی معاہدہ باہمی تعاون میں توسیع کی غرض سے معرض وجود میں آیا ہے اور یورپی یونین جامع مشترکہ ایکشن پلان میں بتائی گئی اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنے میں پرعزم ہے اور ایران کے ساتھ اقتصادی تعلقات میں فروغ لانا چاہتی ہے ان کا یہ اقدام مشترکہ مفادات کے حصول کے لئے ہے۔ فیڈریکا موگرینی کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ یورپی یونین ایران کے ساتھ تعاون بڑھانے کے لئے نئے موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیار ہے۔
واضح رہے موجودہ عالمی نظام میں خود مختار ملکوں کے مفادات مختلف میدانوں میں ان کے تعاون کے مطابق ہوتے ہیں لیکن اس راہ میں رکاوٹیں بھی ہوتی ہیں کیونکہ سامراجی طاقتیں کسی بھی وقت خود مختار ملکوں کے درمیاں اتحاد کے حق میں نہیں ہوتی ہیں کیونکہ اس تعاون کا نتیجہ ان کے غیر قانونی مفادات کے برخلاف نکلتا ہے اسی وجہ سے بعض طاقتیں بے بنیاد بہانوں سے خود مختار ملکوں کے درمیاں موثر تعلقات کے وجود میں آنے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتی ہیں۔ایران اور یورپی یونین کے تعلقات بھی سامراج کی منفی پالیسیوں سے مستثنی نہیں ہیں۔ ثبوت و شواہد سے پتہ چلتا ہےکہ امریکہ جامع مشترکہ ایکشن پلان پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے اور اپنے یورپی اتحادیوں پر بھی دباؤ ڈال رہا ہے کہ تہران سے دور ہوجائیں۔ امریکہ کے ان ناقابل اطمینان اقدامات کی بنا پر ہی ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے کہا ہے کہ یورپی ممالک ایران کے ساتھ تعاون کرنے پر مائل ہیں لیکن ان تعلقات میں بیرونی طاقتوں کی مداخلت اور ان سے متاثر ہوئے بغیر فروغ آنا چاہیے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ بعض یورپی ممالک امریکہ کے اثر و رسوخ کے تحت ہیں اور اامریکہ کے اسی دباؤ کی بنا پر انہیں ایران کے ساتھ تعلقات بنانے مین مشکلات کا سامنا ہے۔ یورپی پارلیمنٹ میں جرمنی کے ایک رکن نے کہا ہے کہ یورپ امریکہ کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا ہم نے ایٹمی معاہدہ کے حصول کے لئے مذاکرات کئے ہیں لیکن اب ا مریکہ اس معاہد ےپر عمل درآمد کی مخالفت کررہا ہے۔یورپی حکام سے مذاکرات کے دوران جس چیز پر تنقید کی جاتی ہے وہ یورپ کا یہی رویہ ہے اور محترمہ موگرینی کو ایران کی نصیحیت بھی اسی تناظر میں انجام پائی ہے۔لھذا ان مسائل کے پیش نظر یورپی یونین کا اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنا ہی مستقبل میں ایران اور اس یورنین کے آئندہ تعلقات کی کسوٹی قرارپائے گا