خلیج فارس کی طرف نیٹو کے بڑھتے ہوئے قدم
کویت کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ کویت نیٹو کے ساتھ تعاون میں توسیع لانے کے لئے اپنی سرزمین پر نیٹو کو دفتر کھولنے کی اجازت دینے کےلئے تیار ہے.
نیٹو اور خلیج فارس تعاون کونسل کے تعاون کی تاریخ دوہزار چودہ میں ہونے والی نیٹو کی سربراہی نشست تک جاتی ہے اس نشست میں استنبول تعاون جدت عمل نامی دستاویز منظور کی گئی جس میں خلیج فارس کے جنوبی کنارے کے ملکوں کو نیٹو کے ساتھ سیکورٹی اور فوجی تعاون کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ کویت اور نیٹو کے حکام نے حال ہی میں باضابطہ طور پر ایک معاہدہ کیا ہے جس کی رو سے نیٹو کے فوجیوں کی آمد و رفت میں آسانی ہوجائے گی۔ البتہ کویت نے نیٹو کے فوجیوں کو مزید اختیارات بھی دے دیئے ہیں۔ اس سلسلے میں کویت میں ہتھیاروں کی نمائش پر پابندی ہونے کے باوجود نیٹو کے فوجیوں کو ہتھیار لیکر چلنے کا حق حاصل ہوگا۔ کویت کی جانب سے نیٹو کے فوجیوں کو مکمل آزادی عمل دیئے جانے کے معنی انہیں کویت میں یکہ تازی کی اجازت دینے کے ہیں۔ کویت اور واشنگٹن کے درمیان چونکہ قریبی تعلقات برقرار ہیں اور کویت میں امریکہ کے ہزاروں فوجی تعینات ہیں اور اس کے علاوہ کویت اور نیٹو کے تعلقات کا رخ چونکہ زیادہ تر امریکہ ہی معین کرتا ہے اس لئے کویت اور نیٹو کے تعلقات کی سطح بلند ہے۔
نیٹو کا کویت کے ساتھ تعلقات میں فروغ لانا مشرق وسطی میں امریکہ کی پالیسیوں کے تناظر میں ہے۔ امریکہ کی جنگی پالیسیوں کے زیر اثر نیٹو کو بظاہر امن قائم رکھنے اور دفاعی مقاصد کے تحت قائم کیا گیا تھا لیکن نیٹو گذشتہ برسوں میں ایک مداخلت پسند، جنگ بھڑکانے والی اور جارح تنظیم میں تبدیل ہوگئی ہے ۔ امریکہ نیٹو میں استحکام اور توسیع لاکر اور اسے دنیا کی نام نہاد پولیس میں تبدیل کرکے دنیا کے مختلف علاقوں میں اپنے تسلط پسندانہ اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ اس طرح سے اقوام متحدہ کو کمزور بناکر یکطرفہ پالیسیاں بالخصوص مغربی ایشیا اور خلیج فارس میں اپنے ناجائز اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ افغانستان پر نیٹو کا غاصبانہ قبضہ، یوگوسلاویہ کے زمانے میں اس تنظیم کی فتنہ انگیزیاں اور لیبیا میں اس کی من مانی سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی سطح پرنیٹو کے مشکوک اقدامات میں شدت آئی ہے البتہ قابل غور بات یہ ہے کہ ان حالات میں خلیج فارس کے عرب ممالک اپنی سرزمینوں کو نیٹو کے فوجی اڈوں میں تبدیل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جارہے ہیں۔ یہ اسے عالم میں ہے کہ یہ فوجی اڈے علاقے میں بدامنی اور ملیٹرائزیشن میں ہی اضافہ کریں گے اور ان کے سنگین اخراجات بھی عرب ملکوں کو ہی اٹھانے پڑیں گے۔ نیٹو کے اقدامات کے نتائج نیٹو کی فوجی موجودگی تک محدود نہیں ہیں بلکہ نیٹو نے دنیا کے مختلف علاقوں میں مداخلت کی ہے جس کے وسیع تباہ کن نتائج سامنے آئے ہیں۔ افغانستان اور لیبیا میں نیٹو کی مداخلتوں سے یہ ممالک بھرپور طرح سے افرا تفری کا شکار ہوئے ہیں اور ان کی افواج کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ نیز ان کی دفاعی توانائی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
خلیج فارس میں نیٹو کی موجودگی بھی عرب ملکوں کے سیکورٹی کے دعووں کے تحت ایسے عالم میں سامنے آرہی ہےکہ اس علاقے میں صرف علاقائی ملکوں کے باہمی تعاون سے ہی سیکورٹی اور استحکام برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ البتہ اس وقت یہ بہت اچھا ہوتا اگر خلیج فارس کے تمام ممالک کسی بیرونی ملک کی مداخلت کے بغیر نظم و سکیورٹی کی بات کرتے جو یقینا اس امن و استحکام سے زیادہ پائیدار ہوتا جو بیرونی ملک لے کر آئیں گے۔