Nov ۲۵, ۲۰۱۶ ۱۸:۲۸ Asia/Tehran
  • شام کے شہری دہشتگردوں اور امریکہ کے حملوں کا شکار

شام میں سرگرم عمل دہشتگرد مارٹر گولوں سے عام شہریوں کو نشانہ بنانا کر انہیں قتل کررہے ہیں

 

شام میں سرگرم عمل دہشتگرد مارٹر گولوں سے عام شہریوں کو نشانہ بنانا کر انہیں قتل کررہے ہیں ادھر امریکہ کے طیاروں نے بھی شمالی رقہ میں حملے کرکے شام کے آوارہ وطنوں کو نشانہ بنایا اور دسیوں کا قتل عام کردیا۔ جیش الاسلام نامی دہشتگردوں نےچوبیس نومبر کو مشرقی دمشق پر مارٹر گولوں سے حملے کئے تھے جن میں سات شامی شہری جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے ہیں جبکہ امریکی طیاروں کی  جارحیت میں دس شہری جان بحق اور دسیوں زخمی ہوئے ہیں

شام اس وقت دسیوں دہشتگرد گروہوں کی جولانگاہ بنا ہوا ہے۔اس کے علاوہ شام عالمی سطح پر روس اور امریکہ کے درمیان نیز استقامت کے محور اور سعودی عرب کے درمیان جنگ کا میدان بناہوا ہے۔ اس وقت متعدد دہشتگرد گروہ شام میں سرگرم عمل ہیں اور ان کا وجہ اشتراک تشدد ہے لیکن تشدد ڈھانے میں ایک دوسرے سے الگ ہیں، ان دہشتگردوں کا تشدد چاہیے جس قدر بھی ہو اس کا شکار تو بہرحال شام کی قوم ہی ہے۔ جس چیز ‎سے ان دہشتگرد گروہوں کے تشدد میں اضافہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ان گروہوں اور شام کی قوم  میں کسی بھی طرح کا قومی اور جذباتی رشتہ نہیں ہے مثال کے طور جیش الاسلام نامی دہشتگرد گروہ جس نے گذشتہ روز دمشق کے مضافات پر مارٹر حملے کئے تھے اس میں پچپن گروہ شامل ہیں جو شام کی فری آرمی سے وابستہ ہیں اور اس کے تمام دہشتگردوں کا تعلق بیرونی ملکوں سے ہے۔ اس وقت یہ توقع کی جارہی ہے کہ یہ دہشتگرد گروہ مزید تشدد ڈھائیں گے کیونکہ ایک طرف سے وہ حلب میں شام کی فوج کے ہاتھوں شدید شکستوں سے دوچار ہورہے ہیں تو دوسری طرف عراق کے شہر موصل میں عراقی فوج اور عوامی رضا کار فورسز کے ہاتھوں داعش کی شکست کے بعد بہت سے تکفیری دہشتگرد عراق سے شام فرار کرگئے ہیں۔ یہاں یہ بات کہنا ضرروی ہے کہ شام کے عوام صرف مختلف دہشتگردوں کی جارحیت کا ہی شکار نہیں ہیں بلکہ شام کی مخالف طاقتوں کی بھی گھناونی پالیسیوں اور اقدامات کا شکار ہیں جبکہ ان طاقتوں کو دہشتگردی سے مقابلہ کرنے کا دعوی ہے اور وہ شام میں خود سرانہ طور پر عمل کررہی ہیں۔ان ملکوں نے دہشتگردی کے خلاف اگست دو ہزار چودہ میں ایک عالمی اتحاد بنایا تھا

دوسرے الفاظ میں شام میں ان طاقتوں کے دہشتگردی کا مقابلہ کرنا اس وقت معنی کا حامل ہوسکتا ہے جب وہ شام کی حکومت کی ہماہنگی سے اقدامات کریں۔ لیکن ان ملکوں نے دہشتگردی سے مقابلے میں شام کی حکومت کو نظر انداز کردیا ہے جس کے نتیجے میں دہشتگردی کے خلاف نام نہاد اتحاد ناکام ہوچکا ہے۔ شام کے شہری اب بارہا اس اتحاد کی بمباری اور حملوں کا شکار بن چکے ہیں جن میں امریکہ کا تازہ ترین حملہ رقہ میں پناہ گزینوں پرحملہ ہے۔رقہ پر امریکہ نے عام شہریوں پر حملے کئے ہیں جبکہ دہشتگردی کا مقابلہ کرنے میں دہشتگردوں کو نشانہ بنانا چاہیے۔ شام کو دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے کے لئے عراق کی طرح رول ماڈل کی ضرورت ہے شام کی حکومت کو دہشتگردی سے مقابلے کی باگ ڈور سنبھال لینی چاہیے اور جو ممالک دہشتگردی سے مقابلے کے دعویےکرتے ہیں انہیں بھی شام کی حکومت کے چینل سے اقدامات کرنے چاہیں۔ اگر یہ پالیسی شام میں اپنائی جائے گی تو عوامی فیکٹر سے بہتر طور پر استفادہ کیا جاسکے گا اور بسیج کی شکل میں جیسے کہ عراق میں حشد الشعبی کے نام سے انجام  پارہا ہے شام میں انجام دیا جاسکتا ہے۔اس صورت میں شام میں دہشتگردی کا مقابلہ حقیقی اور سنجیدہ شکل میں آجائے گا اور اس کا اثر بھی زیادہ سے زیادہ ہوگا جیسا کہ آج عراق میں دہشتگردی کے خلاف اہم کامیابیاں حاصل کی جارہی ہیں

 

 

ٹیگس