پاکستانی فوج کے سربراہ کا دورہ ریاض
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوا سعودی عرب کے دورے کے تین روزہ دورے پر ریاض میں ہیں
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوا سعودی عرب کے دورے کے تین روزہ دورے پر ریاض میں ہیں۔ جنرل باجوا اٹھارہ دسمبر کو ریاض پہنچے ہیں۔ ریاض میں سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع محمد بن عبداللہ نے ان کا استقبال کیا۔وہ سعودی عرب کے اعلی حکام سے تبادلہ خیال کررہے ہیں۔ پاکستانی فوج کے نئے سربراہ کا یہ پہلا بیرون ملک دورہ ہے۔انہیں گذشتہ مہینے اس عھدے پر منصوب کیا گیا تھا۔ حالیہ برسوں میں پاکستان اور سعودی عرب کے فوجی اور سیاسی تعلقات میں کافی فروغ آیا ہے۔ دوہزار پندرہ میں پاکستانی پارلیمنٹ کی جانب سے یمن کے نہتے عوام پر حملے میں سعودی عرب کے اتحاد میں شریک ہونے کی دعوت کا منفی جواب دینے کے بعد سے ریاض اور اسلام آباد کے تعلقات نشیب وفراز کا شکار رہے ہیں۔ البتہ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے یہ کھ کر یمن کی جنگ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ پارلیمنٹ نے کیا ہے سعودی عرب سے تعلقات کا تحفظ کرنے کی کوشش اور صوبہ پنجاب کے وزیراعلی اپنے بھائی شہباز شریف کو سعودی حکام کی دلجوئی کے لئے ریاض بھیجا اور دونوں ملکوں کی سالانہ فوجی مشقوں میں بھی شرکت کی۔ پاکستان کے لئے سعودی عرب کی امداد کا منقطع ہوجانا، ریاض کا اسلام آباد سے ہتھیاروں کی خریداری روک دینا وہ اہم مسائل ہیں جن کی بنا پر پاکستانی حکومت سعودی عرب سے سرد تعلقات کے جاری رہنے پر تشویش کا شکار ہوگئی ہے۔ اسی وجہ سے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل باجوا نے اپنے پہلے بیرونی دورے کے لئے سعودی عرب کا انتخاب کیا ہے تاکہ پاکستانی فوج کے اعلی ترین عھدیدار اور پاکستانی سیاست میں قول فیصل کی حامل شخصیت کی حیثیت سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری لاسکیں۔ البتہ سعودی عرب اور پاکستان کے ساتھ طالبان افغانستان کے خفیہ تعلقات کے بارے میں بعض رپورٹوں میں یہ قیاس آرائی بھی کی جارہی ہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ ریاض میں افغانستان میں طالبان کی نئی پالیسیوں اور اس ملک میں جنگ اور صلح کے مسئلے پر بھی سعودی حکام سے تبادلہ خیال کریں گے۔ چونکہ علاقے میں بالخصوص عراق میں سعودی عرب کی پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں لھذا حکومت ریاض علاقے میں اپنی بگڑی ساکھ بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ پاکستان کے ساتھ تعاون میں فروغ لانا بالخصوص افغانستان میں اپنے مفادات کے حصول کے لئے طالبان گروہ کو مشترکہ طور پر استعمال کرنا جنرل باجوا کے اس دورہ ریاض کے ثمرات میں شامل ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں سعودی عرب کی جانب سے ایسے دینی مدارس کی مالی حمایت کرنا جن میں انتہا پسندی سکھائی جاتی ہے جو کہ شیعہ مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ پرمنتج ہوتی ہے پاکستانی حکومت کی تشویشوں میں سے ایک ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان شیعہ مسلمانوں کی جانب سے حکومت اسلام آباد کی سکیوریٹی پالیسیوں پر شدید اعتراض و احتجاج اور شیعہ مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں پاکستانی حکومت کی ناکامی اور ناتوانی کی وجہ سے جنرل باجوا ریاض سے تشدد پھیلانے والے دینی مدارس کی مدد بند کرنے کے لئے تقاضہ کرسکتے ہیں۔