افغانستان و پاکستان کی سرحد پر ایک بار پھر فائرنگ کا واقعہ
افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان شکیب مستغنی نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان پر ہونے والے راکٹ حملے فوری طور پر روکے۔ افغانستان کے اس ترجمان نے خبردار کیا کہ اس قسم کے حملوں سے دونوں ملکوں کے تعلقات ماضی سے کہیں زیادہ متاثر ہوں گے۔
افغانستان کی وزارت خارجہ نے پاکستان کی سرزمین سے افغانستان پر ہونے والے راکٹ حملوں پر اعتراض کرتے ہوئے کابل میں پاکستان کے سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا ہے۔ حکومت افغانستان کے نقطہ نظر سے افغانستان پر پاکستان سے یہ راکٹ حملے، اشتعال انگیز اقدام ہے جس کے ناقابل تلافی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ افغانستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق پاکستان کی سرزمین سے یہ راکٹ حملے افغانستان کے صوبوں قندھار اور کنڑ کے مختلف علاقوں پر ہوئے ہیں اور کابل کے سخت انتباہ کے باوجود اس طرح کے حملوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستان سے افغانستان پر راکٹ حملے ہوئے ہیں بلکہ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران اس قسم کے حملے اس سے قبل بھی ہوتے رہے ہیں جن میں متعدد عام شہری مارے گئے ہیں اور رہائشی مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی حکومت ان حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کرتی رہی ہے تاہم حکومت افغانستان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بعض دھڑے، اس قسم کے حملے کر کے کابل اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات کو کشیدہ بنائے رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اس لئے حکومت پاکستان کو چاہئے کہ ان دھڑوں کا پتہ لگا کر ان کے خلاف کارروائی کرے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان مختلف مسائل منجملہ طالبان، دہشت گردی کے خلاف مہم اور ڈیورینڈ لائن سمیت مشترکہ سرحدوں کی سیکورٹی کے حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ جبکہ دونوں ہی ممالک، ایک دوسرے پر مخالف گروہوں کی حمایت اورمشترکہ سرحدوں میں بدامنی پھیلانے کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ دہشت گردی، دونوں ہی ملکوں کی دشمن ہے اور اسلام آباد کے حکام نے بارہا اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کے مفاد میں ہے مگر افغان حکام کا کہنا ہے کہ اسلام آباد، افغانستان میں قیام امن کے لئے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھا رہا ہے اور وہ افغانستان میں سیکورٹی کی صورت حال کو کشیدہ بنائے رکھنا چاہتا ہے۔
افغانستان میں بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان کی حکومت، افغانستان میں اپنے حریف ملک ہندوستان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے سخت خلاف ہے اور وہ افغانستان میں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے طالبان کو ایک حربے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ اسی بناء پر جب تک کابل کی حکومت، ڈیورینڈ لائن اور افغانستان کے سیاسی اقتدار میں طالبان کو کوئی مناسب مقام دینے پر توجہ نہیں دیتی ہے، افغانستان میں امن کے عمل کو آگے بڑھانے میں پاکستان کے تعاون سے متعلق کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ خاص طور سے ایسی صورت میں کہ افغانستان میں ہندوستان کا اثر و رسوخ بڑھتا ہی جا رہا ہے اور پاکستان اسے افغانستان کے خفیہ اداروں کے تعاون سے اپنی قومی سلامتی کے خلاف انجام پانے والے اقدام سے تعبیر کرتا ہے۔
ایسی صورت حال میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان اختلاف اور کشیدگی میں نہ صرف یہ کوئی کوئی کمی نہیں آئے گی بلکہ پاکستان میں انتہا پسند اور شدّت پسند دھڑے، مشترکہ سرحدوں کی سیکورٹی کی صورت حال کو درہم برہم کر کے کابل اور اسلام آباد کے تعلقات کو ماضی سے زیادہ کشیدہ بنانے کی کوشش بھی کرتے رہیں گے۔
حکومت افغانستان کے نقطہ نظر سے پاکستان کی اندرونی مشکلات اور ہندوستان کے اثر و رسوخ اور طالبان کے بارے میں اسلام آباد کی درخواستوں پر کابل حکومت کی بے توجہی کے پیش نظر ایسا نہیں لگتا کہ مشترکہ سرحدوں پر جاری اس بحران و بد امنی کو، جو ایک طرح سے پاکستان میں بعض دھڑوں کی جانب سے پیدا کی جا رہی ہے، کابل اور نئی دہلی کے مقابلے میں اپنی شکست و ناکامی کو پنہاں رکھ سکیں گے-