افغانستان کے علمی مراکز میں انتہا پسندانہ افکار پر تشویش
ایسی حالت میں کہ افغانستان کی حکومت اور فوج نے مختلف علاقوں میں طالبان اور داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف ہمہ جہتی جنگ شروع کر رکھی ہے، صوبے تخار کے گورنر نے کہا ہے کہ کابل کی حکومت،افغانستان کے علمی مراکز میں انتہا پسند اور سلفی گروہوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے غافل رہی ہے۔
افغانستان کے شمال مشرقی صوبے تخار کے گورنر یاسین ضیاء نے اعلان کیا ہے کہ حزب التحریر جیسی انتہا پسند جماعتوں سے وابستہ گروہ، اس صوبے کی یونیورسٹی میں سرگرم عمل ہو گئے ہیں جو طلباء کو حکومت افغانستان کے خلاف اکسا رہے ہیں۔
انھوں نے افغانستان کی یونیورسٹیوں میں انتہا پسند گروہوں کی جاری سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صورت حال ایسی ہو گئی ہے کہ صوبے تخار کی یونیورسٹیوں کے بعض اساتذہ بھی طلباء کو انتہا پسند گروہوں کے نظریات کی تعلیم دے رہے ہیں اور یہ مسئلہ صرف صوبے تخار تک ہی محدود نہیں ہے۔
صوبے تخار کے گورنر نے یہ بھی کہا کہ اس صورت حال کے بارے میں باضابطہ مراسلے اور انتباہ دیئے جانے کے باوجود افغانستان کی اعلی تعلیم کی وزارت، خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ حزب تحریر، انّیس سو ترپن میں وجود میں آئی اور دنیا کے چالیس سے زائد ملکوں میں اس کے دفاتر موجود ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اس حزب کا مرکزی دفتر پاکستان میں ہے جبکہ وسطی ایشیا کے مختلف ملکوں میں اس کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ حزب تحریر کے سرغنوں کی برطانیہ آمد ورفت کے پیش نظر افغانستان کے بعض حلقوں اور پارٹی حکام کا کہنا ہے کہ برطانیہ کا ایم آئی سکس نامی خفیہ ادارہ، اس پارٹی کی حمایت کرتا ہے۔
اگرچہ افغانستان میں حزب تحریر کی سرگرمیوں پر پابندی ہے تاہم یہ حزب، طالبان، القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے افکار سے بہت زیادہ قریب ہے اور درحقیقت ان تینوں گروہوں کے باوجود، جو اسلامی حکومت یا خلافت کی تشکیل کے بارے میں عسکری طریقے سے اپنے افکار پر عمل کرانے کی کوشش کر رہے ہیں، حزب تحریر نے اپنے پروگراموں کو آگے بڑھانے کے لئے علمائے دین، مساجد کے اماموں اور یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی مراکز کے اساتذہ پر اپنی خصوصی توجہ مرکوز کی ہے۔
یہاں تک کہ اس حزب کو سلفی اور تکفیری گروہوں کا علمی و ثقافتی بازو قرار دیا جاسکتا ہے جس نے تعلیم یافتہ شخصیات کو نشانہ بنایا ہے۔ افغانستان میں حزب تحریر کی بیشتر سرگرمیاں شمالی علاقوں میں جاری ہیں جہاں زیادہ تعداد میں یونیورسٹیاں اور تعلیمی مراکز پائے جاتے ہیں۔
اس بات کے پیش نظر کہ جنوبی افغانستان کے علاقوں میں زیادہ تر پختون قوم کے لوگ آباد ہیں ان علاقوں کے لوگ اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ اپنے نوجوانوں کو دینی تعلیم دلوائیں اور اس طرح وہ پاکستان کے دینی مدارس کے زیر اثر قرار پاتے رہے ہیں۔
اس رو سے حزب تحریر کی مانند انتہا پسند گروہ، جو وسطی ایشیا کے مختلف ملکوں منجملہ تاجیکستان میں سرگرم عمل ہیں، تاجیک، ازبک اور ترکمن جیسی افغان اقلیتوں پر زیادہ توجہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ان اقلیتوں والے علاقوں کو انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کے لئے محفوظ علاقوں میں تبدیل کیا جاسکے۔
اس لئے کہ شمالی افغانستان میں آباد اقلیتیں طالبان، القاعدہ اور داعش دہشت گرد گروہ کے سخت خلاف ہیں اور ان علاقوں میں انتہا پسند و دہشت گرد گروہوں کو مقام دلوانے کے لئے ان علاقوں میں روشن خیال افراد کی ذہنیت تبدیل کئے جانے کی ضرورت ہے اور حزب تحریر نے ہی یہ بیڑا اٹھا رکھا ہے۔
تخار یونیورسٹی کے بعض اساتذہ کی گرفتاری سے اس بات کی نشاندہی ہو تی ہے کہ انتہا پسند اور تکفیری گروہوں نے افغانستان کے علمی مراکز میں اپنے پروگراموں کو آگے بڑھانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے اور یہ اساتذہ اب ان گروہوں کے افکار کی ترویج کے عوامل کی حیثیت سے سرگرم عمل ہیں اور یہ مسئلہ بہت زیادہ تشویشناک بن گیا ہے۔
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ حزب تحریر افغانستان کی حکومت کو غیر اسلامی اور آلہ کار حکومت سمجھتی ہے لہذا اس حکومت کو برطرف اور اس کی جگہ خلافت اسلامی قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
بہرحال اس بات کے پیش نظر کہ افغان عوام اب جنگ سے تنگ آچکے ہیں اور انتہا پسند گروہوں کے پاس شمالی افغانستان کے علاقوں میں اپنا اثرورسوخ پیدا کرنے کا کوئی وسیلہ بھی نہیں ہے اس لئے ان گروہوں نے یونیورسٹیوں اور مساجد کی ثقافتی سرگرمیوں پر اپنی نظریں جما رکھی ہیں ایسی صورت میں ان گروہوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کابل حکومت کی جانب سے ماضی سے کہیں زیادہ ہوشیاری کا مظاہرہ کئے جانے کی ضرورت ہے۔