ایران کے خلاف آل سعود کی تمام سازشیں ناکام
لندن سے شایع ہونے والے اخبار انڈی پینڈینٹ نے رپورٹ دی ہے کہ دوسال قبل ایسا لگتا تھا کہ سعودی عرب کی جانب سے خود کو عرب اور اسلامی ملکوں کی سب سے بڑی طاقت ظاہر کرنے اور ایران کو گوشہ نشین کرنے کی کوششیں کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہیں لیکن سعودی عرب کے یہ منصوبے کہ اسے عالم اسلام اور عرب ملکوں کی سب سے بڑی طاقت بننا ہے نقش برآب ہوگئے ہیں۔
لندن کے اس اخبار نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دسمبر دو ہزار پندرہ میں بہت سے سیاسی اور سکیوریٹی حلقوں منجملہ جرمنی کی بیرون ملک کام کرنے والی انٹیلیجنس ایجنسی کا یہ کہنا تھا کہ سعودی شاہی خاندان کے پرانے حکام کے سفارتی اور احتیاط آمیز رویے کی جگہ اب مداخلت پسند پالیسیوں نے لے لی ہے جو تشویش کا سبب ہے۔ اب جبکہ سعودی عرب کی نئی جارحانہ پالیسیوں کو بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے ان پالیسیوں کے منفی اثرات ظاہر ہونے لگے ہیں اور سعودی عرب کےخواب نہ صرف شرمندہ تعبیر نہیں ہوئے بلکہ اسے تمام میدانوں میں شکست اور ناکامی سے دوچار دیکھا جاسکتا ہے۔
سعودی عرب نے مختلف اھداف حاصل کرنے کےلئے ایران کے خلاف اقدامات شروع کئے تھے، علاقے میں ایران کو دیوار سے لگانا، ایران اور اس کے ہمسایہ ملکوں میں اختلافات پیدا کرنا،سامراجی ملکوں کی فوجی موجودگی کے لئے زمین ہموار کرنا، یہ ساری چیزیں ایران کے خلاف سعودی عرب کے اھداف میں شامل تھیں۔آل سعود کی حکومت نے ان اقدامات کے ساتھ ساتھ ایران پر علاقے میں توسیع پسندانہ اور کشیدگی پھیلانے والی پالیسیاں اپنانے کے الزامات بھی لگانا شروع کئے، لیکن آل سعود کے یہ اقدامات حقائق سے فرار اور مصنوعی بحرانوں کے پیچھے چھپنے کے مترادف ہیں اور ان سے اس بات کی نشاندہی ہوت ہے کہ سعودی عرب اور اس کے پٹھو ممالک کو علاقے میں اپنے منصوبوں کی ناکامی اور اپنی پالیسیوں کے شکست دو چار ہونا پڑا ہے۔ سعودی عرب اس وقت یمن کے دلدل میں پھنس چکا ہے اور ایسی جنگ میں جکڑا ہوا ہے جسے اس نے خود شروع کیا تھا۔ بحرین میں بھی سعودی عرب کی فوجی مداخلت سے عوام کے کچلے جانے اور انسانی حقوق کی پامالی کی بنا پر آل خلیفہ اور آل سعود کی رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔آل سعود کے حکام کو یہ یقین تھا کہ وہ ان اقدامات سے علاقے کے جیو پولیٹیکل مسائل کے میدان میں قدم رکھ کر سکیوریٹی معاملات کو بھی اپنے ہاتھوں میں لے سکتے ہیں لیکن سعودی عرب کے حکام نے فرقہ واریت کو ہوا دی اور اس کے نتیجے میں خود عدم استحکام کا شکار ہوگئے۔ سعودی عرب کے حکام نے علاقے میں فوجی کارروائیاں انجام دے کر اپنے جنون آمیز اقدامات کو اتحاد برائے امن و صلح اور دہشتگردی سے مقابلے کی کوششیں قراردینے کی سعی رائیگاں کی اور عملی طور پر جنگ و ویرانی اور بے گناہ انسانوں کا قتل عام دیکھنے کو ملا۔سعودی عرب نے یہ کوشش کی کہ جو کچھ اس نے خود کیا ہے اس کا ذمہ دار ایران کو قرار دے۔سعودی عرب نے دہشتگرد گروہوں کی حمایت کرکے فتنے پھیلائے، علاقے کے ملکوں میں وہابیت اور تکفیری افکار پھیلا کر ان ملکوں کے استحکام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ یہ ایسے اقدامات ہیں جو آج سامنے آرہے ہیں اور عالمی رائے عامہ نے ان پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ سعودی عرب کی حکومت کے موقف اور آل سعود کے غیر منطقی اقدامات سفارتی سکیوریٹی کے اعتبار سے حتی فوجی لحاظ سے بھی ناقابل قبول ہیں۔ سعودی عرب نے تیل کی آمدنی کو ایران کے خلاف دشمنی اور جنگوں پر خرچ کیا ہے یہاں تک کہ اوپیک میں بھی سازش کرکے عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں کو گرا دیا تاکہ بزعم خویش ایران کو اقتصادی مشکلات کا شکار کردے۔ مجموعی طور پر سعودی عرب کے یہ تمام اقدامات آخرکار خود اسی کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئے اور اینڈی پینڈینٹ اخبار کے بقول سعودی عرب اس لڑائی میں ہار گیا۔