سعودی عرب دہشت گردی کا حامی
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ سعودی عرب ایسا ملک ہے جس کی پالیسیوں میں اصلاح دنیا میں امن و سکون کے لئے ضروری ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نے بہرام قاسمی نے سعودی عرب کے وزیر دفاع اور جانشین ولی عھد محمد بن سلمان کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب ایسے عالم میں ایران پر دہشتگردی اور انتہا پسندی کی حمایت کے الزام لگا رہا ہے کہ آل سعود خود شام ، یمن اور عراق کے عوام کے خلاف انسانیت سوز جرائم کا سبب بنا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے صیہونی حکومت کی آواز میں آواز ملا کر مسلمانوں بالخصوص عالم عرب اور فلسطینی کاز کے ساتھ خیانت کی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ سعودی عرب کے وزیر دفاع کا بیان ان انٹلیجنس کے انکشافات کے بارے میں دوسروں کو اپنے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرانا ہے جن کا مشاہدہ حالیہ ہفتوں میں کیا گیا ہے، واضح رہے کچھ دنوں قبل ایک مستند رپورٹ سامنے آئی تھی جس میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب دہشتگرد گروہوں کی حمایت کررہا ہے۔
سعودی عرب کے وزیر دفاع نے فارن افیئرز نامی جریدے کے ساتھ گفتگو میں ایران پر الزامات لگائے تھے۔ ان کے انٹرویو سے لگتا ہے کہ وہ سیاسی توھم کا شکار ہوگئے ہیں۔ سعودی عرب میں شاہ سلمان کو تخت پر بیٹھے دوسال کا عرصہ گذررہا ہےاور اس ملک کی حکومت میں بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں ان تبدیلیوں میں محمد بن سلمان کا وزیر دفاع بنایا جانا بھی ہے۔ سعودی عرب کے وزیر دفاع بزعم خویش ایران کو علاقے کے مسائل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے یہ توھمات عالمی آئیڈیالوجی، عدم استحکام اور دہشتگردی کے دائرے میں پیش کیا ہے۔ یہ خیالات ایسے عالم میں پیش کئے جا رہے ہیں کہ سعودی عرب کو، حکومت کے تین بنیادی عناصر یعنی سیاسی پائیداری، سکوریٹی کے میدان میں استحکام اور صحت مند معیشت کے لحاظ سے شدید چیلنجوں کا سامنا ہے اور جب تک وہ اپنی روشوں اور پالیسیوں کو تبدیل نہیں کرتا اس وقت تک اپنے ہی تیار کردہ دلدل میں دھنستا چلا جائے گا۔
اسلامی جمہوریہ ایران اپنی خارجہ پالیسی کے اصول و ضوابط کے مطابق سعودی عرب سے کسی طرح کی دشمنی نہیں رکھتا ہے لیکن سعودی عرب نے بالخصوص شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد ایران کے ساتھ کشیدگی بنا رکھی ہے اور یہ کشیدگی اجتماعی سلامتی تک پہنچ گئی ہے۔ سعودی عرب شام میں جنگجووں اور جانے پہچانے دہشتگرد گروہوں کی مدد کررہا ہے اور اس نے یمن میں تباہ کن و لاحاصل جنگ شروع کر رکھی ہے۔ادھر بحرین میں بھی آل سعود نے اپنے فوجی بھیج کر عوام کو کچلنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔سعودی عرب کی مقابلہ کرنے کی روش اور اوپیک تنظیم میں اس کی جانب سے کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کے کافی منفی اثرات پڑے ہیں۔ ریاض کے حکام داخلی سطح پر بھی آہنی مکے کی پالیسی پر عمل کررہے ہیں۔ جنون آمیز اقدامات جیسے بزرگ عالم دین آیت اللہ شیخ باقر النمر کو شہید کرنا، عوام کی سرکوبی جاری رکھنا نیز حج کے دوران بدانتظامی کا مظاہرہ ، جس کے نتیجے میں سات ہزار سے زائد افراد جان بحق ہوئے ہیں، سعودی عرب کے جرائم کے کچھ نمونے ہیں۔ ایسے عالم میں سعودی عرب کے ناتجربہ کار حکام یہ تصور کرتے ہیں کہ دوسرے ملکوں پر الزام لگا کر اور ایران کو علاقے میں عدم استحکام کا ذمہ دار ٹھہرا کر اور حقائق کے منافی بیانات دے کر اپنی ناکام پالیسیوں میں دوبارہ جان ڈال سکتے ہیں۔