Apr ۱۳, ۲۰۱۷ ۱۷:۲۷ Asia/Tehran
  • ایران کی میزائلی صلاحیت اور جی سیون کا اختتامی بیان

جی سیون کے وزرائے خارجہ نے اٹلی میں اپنے دو روزہ اجلاس کےاختتامی بیان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف بے بنیاد الزامات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ایران کے میزائل پروگرام کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جی سیون میں سات صنعتی ممالک جرمنی، فرانس، اٹلی، جاپان، کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے بدھ کے دن جی سیون کے اختتامی بیان پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے بیلسٹک میزائلوں کی ڈیزائیننگ اس طرح سے کی گئی ہے کہ ایران کے میزائل تجربات کسی بھی طرح سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے قوانین کے منافی نہیں ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جی سیون کے اس طرح کے اقدامات دفاعی امور سے متعلق بین الاقوامی حقوق اور کنونشنوں کے منافی ہیں کیونکہ ان سے دفاع کے جائز حق کی نفی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ  کونسے بین الاقوامی کنونشن کے مطابق دفاعی ہتھیار کے طور پر میزائل کا حامل ہونا خطرہ شمار ہوتا ہے۔

اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ایران نے دفاع کے میدان میں بہت اہم قدم اٹھائے ہیں لیکن یہ ممالک ایسی حالت میں ایران کے میزائل پروگرام کے بارے میں اپنی تشویش کا دعوی کر رہے ہیں کہ جب یہ خود مختلف علاقوں میں ایسے میزائل نصب کرنے کے درپے ہیں جو ایٹمی وار ہیڈز لے جاسکتے ہیں اور امریکہ نے بارہا ایران کو فوجی آپشن میز پر ہونے کی دھمکی دی ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ ایران کو خطرہ ظاہر کرنے کی پالیسی پر عمل کیا ہے۔

اس طرح کے اقدامات درحقیقت امریکہ کی وزارت خارجہ اور کانگریس کے درمیان ہونے والی کام کی تقسیم کا نتیجہ ہیں اور ان اقدامات پر مشترکہ بیان کی صورت میں عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد شروع ہونے کے ایک سال کے زیادہ عرصے اور امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد یہ اقدامات نئے مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں۔   

اس سلسلے میں قابل توجہ نکتہ خطے میں مغرب کی جانب سے بحران پیدا کئے جانے سے توجہ ہٹانا اور اس کا الزام دوسروں پر لگانا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور چند علاقائی ممالک منجملہ سعودی عرب کئی برسوں سے خطے میں بحران پیدا کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران افغانستان، عراق، شام اور یمن میں ہونے والے واقعات، جنگوں، انتہاپسندی اور داعش جیسے گروہوں کے وجود میں آنے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ان واقعات اور بحرانوں میں بڑی طاقتیں اور تسلط پسند ممالک ملوث ہیں جو اپنے مفادات کے حصول کے درپے ہیں۔

ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح کے اجلاسوں میں امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی ممالک جو موقف اختیار کرتے ہیں ان سے وہ خاص اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں جن میں سے اہم ترین ہدف خطے میں مغربی تسلط کا دائرہ بڑھانا ہے۔

واضح سی بات ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے خطرات کی سطح نیز دفاعی ضروریات اور ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے دفاع کی بنیاد پر اپنی دفاعی حکمت عملی تیار کی ہے۔ یہ حکمت عملی بین الاقوامی قوانین کے منافی نہیں ہے۔ جیساکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بعد ایک قرارداد میں صراحت کے ساتھ کہا کہ ایران کی جائز اور معمول کی فوجی سرگرمیوں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہےکہ ایران کا دفاعی پروگرام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کے دائرے سے ہی خارج ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران اپنے دفاع کے لئے دوسروں سے اجازت نہیں لے گا۔

ایران کے اعلی حکام بارہا کہہ چکے ہیں کہ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت نہیں ہے۔ بنابریں ایران کے بیلسٹک میزائل ایٹمی وار ہیڈز لے جانے کے لئے ڈیزائن ہی نہیں کئے گئے ہیں۔ اس کے باوجود امریکہ بے بنیاد الزام لگانے کی پالیسی کے تحت ایران کے میزائل پروگرام کو خطے میں بدامنی کا سبب اور خطرہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ امریکہ ایران کی میزائلی صلاحیت کے مسئلے کو مشترکہ جامع ایکشن پلان کے مسئلے کے ساتھ جوڑنا چاہتا ہے حالانکہ ان دونوں کا آپس میں کوئی ربط اور تعلق نہیں ہے۔

بنابریں امریکہ کے سامنے اب دو ہی راستے ہیں۔ ایک یہ کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کی خلاف ورزی کرے اور اس ایٹمی معاہدے میں درج اپنے وعدوں کو عملی جامہ نہ پہنائے۔ لیکن چونکہ یورپی یونین نے مشترکہ جامع ایکشن پلان اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی ہر طرح کی خلاف ورزی کی واضح مخالفت کی اس لئے امریکہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کی خلاف ورزی تو نہیں کرے گا لیکن اسے اندر سے کمزور کرنے کی کوشش کرے گا۔

درحقیقت اس سلسلے میں امریکہ کے لئے پہلے مرحلے پر خوش آئندہ آپشن مشترکہ جامع ایکشن پلان کا تعلق ایران کی میزائلی صلاحیت کے ساتھ جوڑنا ہے۔ امریکہ کے سامنے دوسرا راستہ اور دوسرا ہدف ایران کے ایٹمی معاملے کی طرح اس کی میزائلی صلاحیت کا معاملہ اٹھانا ہے اور اس کام کے لئے عالمی طاقتوں کے درمیان اجماع اور اتفاق پیدا کئے جانے کی ضرورت ہے اور اٹلی میں جی سیون کا اختتامی بیان  اسی تناظر میں جاری کیا گیا ہے۔

 

 

ٹیگس