خطے میں امریکہ کی مہم جوئی اور ایرانی وزیر دفاع کا زاویۂ نگاہ
روس کے دارالحکومت ماسکو میں چھٹی عالمی سیکورٹی کانفرنس بدھ سے شروع ہوگئی ہے جس میں تکفیری گروہوں اور دہشت گردوں کی سرگرمیوں کے اثرات اور مشرق وسطی کی تازہ ترین صورتحال پر غور کیا جا رہا ہے۔
اس کانفرنس میں تقریبا اسّی ملکوں کے وزرائے دفاع ، مسلح افواج کے سربراہان اور اعلی فوجی افسران سمیت سات سو ماہرین شریک ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع ایسی حالت میں اس کانفرنس میں شریک ہیں کہ جب ایران اور روس نے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے اور دہشت گردی کا مقابلہ ایران اور روس کے باہمی تعاون کی ترجیحات میں شامل ہے۔ دونوں ممالک نے مشترکہ اقدامات اور ہم آہنگی کے ذریعے خطے میں دہشت گردی کا خطرہ پھیلنےکی روک تھام کر دی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع بریگیڈیئر جنرل حسین دہقان نے اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر کے غیر ذمہ دارانہ بیانات، کردار اور فیصلوں نیز واشنگٹن، اسرائیل اور سعودی عرب کی جانب سے تکفیری دہشت گردوں کی مسلسل حمایت کے باعث عالمی سلامتی کو درپیش خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔
ایران کے وزیر دفاع نے اپنے خطاب میں دنیا بھر میں بے گناہوں کے قتل عام پر عالمی اداروں کی خاموشی اور دوہرے معیار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ٹھوس عزم و ارادے اور دہشت گردی کے اسباب اور جڑوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
بریگیڈیئر جنرل حسین دھقان نے ایک بار پھر ایران کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ تہران عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری، نگہداشت اور ان کے استعمال کا مخالف ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی عزم کے ذریعے مشرق وسطی میں اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کو نابود کرکے خطے کی سلامتی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
مشرق وسطی (مغربی ایشیا) کے حالات کا جائزہ لینے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ صیہونی حکومت کے ساتھ ہم آہنگ بعض علاقائی ممالک کے تعاون سے خطے میں بدامنی پھیلانے کے سناریو کو عملی جامہ پہنا رہا ہے۔ البتہ خطےمیں دہشت گردانہ اقدامات کا سلسلہ جاری رہنے کا دارومدار اب شام کے بحران پر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شام کے اسٹریٹیجک شہر حلب کی آزادی اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی جانب شامی فوج کی پیشقدمی کے بعد خطے میں دہشت گردی کے اصلی حامیوں کے طور پر امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کو شدید ضرب لگی ہے۔
شام کی فوج کی پیشقدمی اور دہشت گردوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکال باہر کئے جانے کے اثرات اب پہلے سے زیادہ محسوس کئے جا رہے ہیں۔ شام کے خلاف امریکہ کے حالیہ سناریو، شام کی حکومت پر بغیر کسی ثبوت کے کیمیاوی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام لگانے اور شام کی الشعیرات ایئربیس پر امریکہ کے میزائل حملےکے باوجود عالمی اور علاقائی سطح پر شام کی صورتحال میں تبدیلی آنے کا سلسلہ جاری ہے۔
امریکہ نے گیارہ ستمبر 2001 کے واقعات کے بعد طالبان اور دہشت گردی کے مقابلے اور القاعدہ کو نیست و نابود کرنے کے وعدے کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا تھا اور اس کے تین سال کے بعد اس نے عراق پر چڑھائی کر دی تھی لیکن نہ تو دہشت گردی کا خاتمہ ہوا اور نہ ہی علاقے اور دنیا میں امن قائم ہوا۔ ایک نئے دہشت گرد گروہ کے طور پر داعش نے مشرق وسطی کے علاقے کو جنگ اور تقسیم سے دوچار کر دیا اور خطے کو بدستور بہت سے خطرات کا سامنا ہے۔ ان حالات میں امریکہ خطے میں مزید مہم جوئیوں کے درپےہے۔
ٹرمپ کی ٹیم امریکہ میں اپنی کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن کو سنبھالا دینے کے مقصد سے متنازع اقدامات اور فیصلوں کے ذریعے رائے عامہ کی توجہ امریکہ کے غیر سنجیدہ اقدامات سے ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔ دریں اثناء اسلامی جمہوریہ ایران دہشت گردی کے مقابلے سے متعلق اپنے واضح مواقف پر تاکید کرنے کے ساتھ ساتھ خطے میں امریکہ کی مہم جوئیوں پر بھی نظر رکھے ہوئےہے اور یقینا وہ امریکیوں کو کشیدگی پھیلانے کا موقع نہیں دے گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع کا خطاب امریکہ کی دھکمیوں کے سلسلے میں صریح اور واضح ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی حکام کو اپنے ماضی پر بھی ایک سرسری نظر ڈالنی چاہئے کیونکہ امریکہ کی حالت اب بہت زیادہ بدل چکی ہے اور دوسرے ملکوں کو دھمکی دینے کے آپشن سے امریکہ کی مشکلات کے حل میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔