اردوغان کی جانب سے سعودی بادشاہ کی چاپلوسی
ترکی، سعودی عرب کے بادشاہ کا محتاج نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ترک صدر رجب طیب اردوغان نے ریاکاری سے کام لیتے ہوئے سعودی عرب کے بادشاہ کی چاپلوسی اور خوشامد کی ہے۔
رجب طیب اردوغان نے اپنی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے پارلیمانی ارکان کے اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے سعودی عرب کے بادشاہ کو خلیج فارس کی بزرگ شخصیت قرار دیا اور قطر کے خلاف سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی پابندیوں کے خاتمے کی اپیل کی۔ اردوغان نے کہا کہ ایک ملک یعنی قطر کو گویا سزائے موت سنائی گئی ہے۔میرے خیال میں خادم الحرمین شریفین یعنی سعودی عرب کے بادشاہ کو خلیج فارس کی ایک بزرگ شخصیت کے طور پر یہ کام ختم کر دینا چاہئے اور ایسے اقدامات کو ترجیح دینی چاہئے جو اس سلسلے میں انجام پانے چاہئیں۔
یہ پہلی بار ہے کہ ترکی کے صدر نے ریاکاری سے کام لیتے ہوئے سعودی عرب کے بادشاہ کی چاپلوسی اور خوشامد کی ہے حالانکہ رجب طیب اردوغان کی شخصیت اور ان کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کے پیش نظر مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ترکی کے مفادات میں تضاد کی صورت میں وہ ریاض کی حکومت کے خلاف بھی موقف اختیار کرنے کے لئے تیار ہیں خاص طور پر اس بات کے پیش نظر کہ سعودی حکام اور خلیج فارس میں سعودی عرب کے اتحادی عرب ممالک ترکی سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ایک فوجی حامی کے طور پر ان کی مدد کرے گا۔ ان حالات میں ترکی کے صدر نے سعودی عرب کے بادشاہ سے جو اپیل کی ہے وہ کسی حد تک غور طلب ہے۔ ترکی کے آرمی چیف نے بھی قطر میں ترکی کے فوجیوں کی تعیناتی کے معاہدے پر عملدرآمد کے مقصد سے بارہ جون کو پیر کے دن تین رکنی وفد قطر بھیجا ہے۔ یہ وفد قطر میں ترکی کے فوجیوں کی تعیناتی کا راستہ ہموار کرنے کے لئے ضروری ہم آہنگی اور اقدامات انجام دے گا۔ واضح سی بات ہےکہ قطر میں ترکی کے فوجیوں کی تعیناتی سعودی عرب سمیت غیر ملکی خطرات کے مقابلے کے مقصد سے ہی کی جائے گی۔
ان حالات میں ترکی کے صدر کے بیانات سے یہ نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے کہ رجب طیب اردوغان نے سعودی عرب کے بادشاہ کو مخاطب کر کے جو کچھ کہا ہے اس کے باوجود انہوں نے بالواسطہ طور پر سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو اشارے کنائے میں دھمکی دی ہے۔ مثلا اردوغان نے قطر اور اس ملک کے شہریوں کے خلاف سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں کو ایک غلط اقدام سے تعبیر کیا ہے۔ انہوں نے قطر کے عوام کے اقتصادی، تجارتی اور عبادات کے بائیکاٹ کو کسی بھی طور پر انسانی اور اسلامی اقدام قرار نہیں دیا ہے جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ رجب طیب اردوغان نے سعودی عرب کے بادشاہ کی خوشامد کرنے کے ساتھ ساتھ اشارے کنائے میں ان کو دھمکی بھی دی ہے۔ ی
ہ ایسی حالت میں ہے کہ جب ترک سیاسی مبصر اتیلا یسیلادا (Atilla Yesilada) نے الجزیرہ ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں کہا ہے کہ ترکی بہت سے امور میں قطر کی خارجہ پالیسی سے اتفاق رکھتا ہے اور اردوغان نے صراحت کےساتھ کہا ہے کہ دوحہ کے خلاف ریاض کے بہانے ان کے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔ اس سیاسی مبصرکے نزدیک فلسطین، مصر، حماس اور اخوان المسلمین کے بارے میں قطر اور ترکی کے مواقف مکمل طور پر ایک جیسے ہیں۔ البتہ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ترکی سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات بگاڑنا چاہتا ہے۔
اس ترک سیاسی مبصر کے بیانات سے پتہ چلتا ہےکہ ترکی کی حکومت سعودی بادشاہت کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں خود کو مجبور نہیں جانتی ہے بلکہ وہ سعودی عرب کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں ہے۔ مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ان تمام حقائق کے باوجود اور قطر کی خودمختاری اور ارضی سالمیت کے تحفظ کے لئے ترکی کے فوجی قطر بھیجے جانے کی کوشش کے باوجود ترک صدر رجب طیب اردوغان کے چاپلوسی کے مبنی بیانات سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ رجب طیب اردوغان نے سعودی عرب کے بادشاہ سے مفادات حاصل کرنے کے لئے ریاکارانہ اور متضاد بیانات دیئے ہیں۔