بحرین میں انسانی حقوق کی پامالی پر یورپی پارلیمنٹ کا اظہار تشویش
بحرین کے عوام کے خلاف آل خلیفہ حکومت کا غیر انسانی رویہ جاری رہنے پر، یورپی پارلیمنٹ کے اراکین نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے-
اس سلسلے میں یورپی پارلیمنٹ کے تین سو سے زیادہ اراکین نے ایک خط پر دستخط کرکے، اسے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی کے حوالے کیا ہے اس خط میں اراکین پارلیمنٹ نے بحرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے تعلق سے اپنی گہری تشویش ظاہر کی ہے-
اراکین یورپی پارلیمنٹ نے بحرین اور خلیج فارس کے دیگر ملکوں کی جیلوں میں قید اس ملک کے سرگرم سیاسی رہنما نبیل رجب اور دیگر سیاسی سرگرم کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے- البتہ بحرین کی افسوسناک صورتحال پر منفی ردعمل صرف یورپی یونین کی پارلمینٹ نے ہی ظاہر نہیں کیا ہے ، بلکہ جون 2017 کے اوائل میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید رعد الحسین نے بھی ، بحرین کے دارالحکومت منامہ کے شمال میں واقع الدراز کے علاقے میں ممتاز عالم دین آیۃ اللہ شیخ عیسی قاسم کے گھر پر سیکورٹی فورسیز کے حملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے کہ جس کے نتیجے میں پانچ افراد شہید ہوگئے تھے، یہ حملہ گذشتہ مہینے مئی کے اواخر میں کیا گیا تھا- اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے اس سینئر عہدیدار نے اسی طرح بحرین میں جاری عوام کی سرکوبی اور مخالفین کی گرفتاری پر تشویش ظاہر کی ہے-
یورپی پارلیمنٹ اور اسی طرح یورپی یونین کے توسط سے آل خلیفہ حکومت کے خلاف تنقیدی موقف اپنائے جانے اور بحرین کے عوام کی سرکوبی جاری رہنے پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی تنظیموں کی نکتہ چینی کے باوجود، جو اہم سوال ذہن میں ابھرتا ہے یہ ہے کہ کیوں مغربی ممالک خواہ وہ یورپ ہو یا امریکہ، آل خلیفہ کی وسیع پیمانے پر بدستور حمایت جاری رکھے ہوئےہیں- درحقیقت گذشتہ چھ برسوں کے دوران ، یعنی بحرین میں عوامی تحریک کے آغاز کے وقت سے ہی، اس ملک کی سیاسی و اقتصادی صورتحال اور امتیازی رویوں کے خلاف عوام کے احتجاج پر مغربی ممالک منجملہ یورپی ملکوں نے معنی خیز خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور انہوں نے اپنی اس خاموشی کے ذریعے ، آل خلیفہ حکومت کو اس کے جارحانہ اقدامات انجام دینے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے-
بحرین میں انسانی حقوق کی تحقیقات انجام پانے کی ضرورت کے تعلق سے اقوام متحدہ کے سرکاری بیان کے باوجود ابھی تک مغربی ممالک نے بحرین کی صورتحال کی نسبت کوئی ٹھوس ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے - یہاں تک کہ جب انسانی حقوق کی سات تنظیموں نے بھی ایک مشترکہ رپورٹ میں ، قیدیوں خاص طور پر سیاسی قیدیوں کو شکنجے دیئے جانے کی مذمت کی اور اس صورتحال سے مقابلے کے لئے عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے سختی سے نمٹے جانے کا مطالبہ کیا اس وقت بھی مغربی ممالک نے اس رپورٹ کو نظر انداز کردیا اور بحرین میں تحقیقات انجام پانے کے سلسلے میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائےانسانی حقوق کا بیان شائع ہونے کے باوجود ان مغربی حکام نے ، اقوام متحدہ کے توسط سے انجام پانے والی تحقیقات میں بحرین سے کسی قسم کا تعاون کرنے کا مطالبہ نہیں کیا -
بلکہ ہم تو اس کا بھی مشاہدہ کر رہے ہیں کہ بعض یورپی ممالک جیسے برطانیہ ، جرمنی اور امریکہ نے براہ راست، بحرین کی حکومت کو انواع و اقسام کے فوجی سازو سامان فروخت کئے ہیں اور اس ملک کے عوام کی تحریک کو کچلنے میں آل خلیفہ حکومت کی مدد کی ہے- اس سلسلے میں بحرین یونیورسٹی کے سابق پروفیسر کالین کاوال کا خیال ہے کہ بحرینی حکومت کے ہاتھوں امریکی ہتھیاروں کی فروخت، انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اس سلسلے میں بحرین کے معروف سرگرم سیاسی کارکن نبیل رجب کی نکتہ چینی مکمل طور پر بجا ہے-
بہرحال بحرین کی صورتحال کے تعلق سے یورپی پارلیمنٹ کے تین سو اراکین کا خط ، دیگرملکوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سلسلے میں مغربی ملکوں کی دوہری پالیسی اور کارکردگی کا ایک اور نمونہ سمجھا جا سکتا ہے- جیسا کہ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ ایک طرف تو یورپی پارلیمنٹ آل خلیفہ کے اقدامات کی مذمت کر رہی ہے اور اس قسم کے اقدامات ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے تو دوسری جانب یورپ کے بڑے ملکوں کے بحرین کی حکومت کے ساتھ مضبوط روابط قائم ہیں اور اس میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے-