ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے خارج ہونے کے بارے میں جواد ظریف کا انتباہ
ایٹمی معاہدے یا مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ موقف سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ یورپی ملکوں حتی بعض امریکی عہدیداروں کی جانب سے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی حمایت کئے جانے کے باوجود ٹرمپ اس بات کی تصدیق نہیں کریں گے کہ ایران نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی پابندی کی ہے۔
اس کے قرآئن کسی حد تک سامنے آچکے ہیں اسی لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے دو اخبارات گارڈین اور فنانشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے پیشین گوئی کی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنائیں گے اور پندرہ اکتوبر کو کانگریس کو پیش کی جانے والے امریکی وزارت خارجہ کی رپورٹ میں ایران کی جانب سے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی پابندی کئے جانے کی تصدیق نہیں کریں گے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے اس انٹرویو میں یورپ سے کہا کہ اگر ٹرمپ حکومت ایران کے ساتھ طے پانےوالے بین الاقوامی معاہدے کو ختم کردیتی ہے تو یورپی ممالک امریکہ کو نظرانداز کر دیں۔ محمد جواد ظریف نے خبردار کیا کہ اگر یورپ نے اس سلسلے میں امریکہ کی پیروی کی تو ایٹمی معاہدہ ختم ہوجائے گا اور ایران سنہ دو ہزار پندرہ میں ہونےوالے ایٹمی معاہدے سے پہلےکے زمانےسے بھی زیادہ جدید ایٹمی ٹیکنالوجی کے ساتھ جلوہ گر ہوگا۔
اگر ٹرمپ نے پندرہ اکتوبر دو ہزار سترہ کو امریکی کانگریس کو پیش کی جانے والی وزارت خارجہ کی تیسری رپورٹ میں ایران کی جانب سے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی پابندی کئے جانے کی تصدیق نہ کی تو کانگریس ساٹھ دنوں کےاندر ایران پر سے ایٹمی معاہدے کی بنیاد پر عارضی طور پر اٹھائی جانے والی پابندیاں دوبارہ لگا سکتی ہے۔
جیسا کہ محمد جواد ظریف نے تاکید کی ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو ایران مشترکہ جامع ایکشن پلان میں درج وعدوں کا پابند نہیں رہے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مشترکہ جامع ایکشن پلان کو ختم کئےجانے کی صورت میں ایران کے پاس جوابی کارروائی کے لئے متعدد آپشن موجود ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایران مشترکہ جامع ایکشن پلان سے قبل والی اپنی پرامن ایٹمی سرگرمیوں کو دوبارہ شروع کر دے گا۔ ایٹمی شعبے میں ایران تحقیقات کی وجہ سے جدید ٹیکنالوجی حاصل کر چکا ہے اور ٹرمپ کی جانب سے مشترکہ جامع ایکشن پلان ختم کئے جانے کی صورت میں اگر ایران نے ضرورت محسوس کی تو وہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ یہ کام انجام دے گا۔
مشترکہ جامع ایکشن پلان سے امریکہ کے ممکنہ طور پر خارج ہونے کی صورت میں ایران کے سامنے بھی اس سے خارج ہونے کا آپشن موجود ہے۔
اس کے علاوہ ایران کے پاس دوسرے آپشنز بھی ہیں اور ان کو عملی جامہ پہنائے جانے کا انحصار اس بات پر ہے کہ یورپی ممالک ٹرمپ حکومت کی جانب سے مشترکہ جامع ایکشن پلان کو ختم کئے جانے کے سلسلے میں کیا موقف اختیار کرتے ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ کے مطابق اگر یورپی ممالک، روس اور چین نےفیصلہ کیا کہ وہ مشترکہ جامع ایکشن پلان سے امریکہ کے خارج ہوجانے کے بعد اس کا ساتھ دیں گے تو اس صورت میں مشترکہ جامع ایکشن پلان کو ختم سمجھا جائے گا۔
یورپی ممالک، روس اور چین نے چونکہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے تحفظ پر تاکید کی ہے اس لئے ایسا نظر آتا ہے کہ امریکہ اکیلا ہی اس معاہدے سے خارج ہونے والا ملک ہوگا۔
امریکہ کے سابق وزیر خارجہ جان کیری نے اس سلسلے میں اخبار واشنگٹن پوسٹ میں لکھا ہے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان سے خارج ہونے کے بعد امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں سے محروم ہوجائے گا اور اس کی جانب سے دنیا والوں کے لئے یہ پیغام جائے گا کہ وہ اپنے وعدے پر عمل نہیں کرتا ہے۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے بھی حال ہی میں اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ایران نے ہمیشہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کی پابندی کی ہے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ حتی اگر امریکہ مشترکہ جامع ایکشن پلان سے خارج ہو جاتا ہے تب بھی یورپ اس کے تحفظ کے لئے ہر ممکن اقدام انجام دے گا۔
مشترکہ جامع ایکشن پلان کی پابندی کئے جانے کی تصدیق کی ذمےداری صرف اورصرف ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کی ہے اور یہ ایجنسی اب تک اپنی سات رپورٹوں میں تصدیق کر چکی ہے کہ ایران نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی پابندی کی ہے۔ ان حالات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے نجی خیالات اور محرکات کو ایران کی جانب سے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی پابندی کا معیار قرار نہیں دیا جاسکتاہے۔ مشترکہ جامع ایکشن پلان کو ختم کرنے پر مبنی ٹرمپ کا ہر طرح کا اقدام دنیا والوں کے سامنے امریکہ کو رسوا کر کے رکھ دے گا کہ یہ ملک اپنے وعدوں کی پابندی نہیں کرتا ہے۔