شام سے متعلق آٹھویں دور کے بے نتیجہ مذاکرات
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے ترجمان نے منگل کے روز، شام کے بحران کے حل کے لئے جنیوا میں آٹھویں دور کے مذاکرات کے آغاز کی خبر دی ہے۔
اسٹیفن ڈوجاریک نے اس بات کا اعلان کرتے ہوئے کہ شام کے مخالفین اس وقت سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ہیں، کہا کہ شامی حکومت کے مذاکرات کار بھی بدھ کو جنیوا جائیں گے۔ اس دور کے مذاکرات میں بنیادی آئین، عبوری حکومت، انتخابات اور دہشت گردی سے مقابلے جیسے چار موضوعات کا جائزہ لیا جائے گا۔ شام میں داعش کی ناکامی کے بعد اور اس ملک میں بقیہ دہشت گردوں اور تکفیری گروہوں کی عنقریب ناکامی کے موقع پر شام کی سیاسی تبدیلیوں میں بہت تیزی آئی ہے اور شام کے تعلق سے عالمی و بین الاقوامی سطح پر اجلاسوں کا انعقاد اس مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کر رہا ہے۔
بہت سے پریس حلقوں نے جنیوا مذاکرات کے ان بعض شرکاء کے ہمیشگی کے اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ جو علاقے میں دہشت گردوں کے حامی ہیں، مذاکرات کے اس دور کے بھی کامیاب ہونے کے بارے میں شکوک و شبھات کا اظہار کیا ہے- دہشت گردوں کے حامی عناصر جنیوا مذاکرات کے ذریعے، شام میں اپنے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حالات فراہم کرنے کے درپے ہیں اور یہی مسئلہ اس امر کا باعث بنا ہے کہ یہ مذاکرات اب تک مثبت نتائج کے حامل نہیں رہے ہیں۔ شام میں دہشت گردوں کے حامی عناصر کہ جو اس ملک میں اپنے ایجنٹوں کی ناکامی کا مشاہدہ کر رہے ہیں مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ مختلف پروپگنڈوں کے ذریعے سیاسی طریقے سے اپنے اہداف کو آگے بڑھائیں۔
ایسے حالات میں انہوں نے شام میں دہشت گردوں کی سرگرمیوں کے لئے، نئی فضا میں سانس لینے کے لئے ماحول تیار کرنے کو اپنے ایجنڈے میں قرار دے رکھا ہے اور وہ اس ملک کے سیاسی مستقبل میں ان کے کردارکو نمایاں کرنے کے درپے ہیں۔ اس موضوع سےاس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ شام میں داعش کی شکست کے بعد، وسیع پیمانے پر سازشوں کی ایک لہرچل پڑی ہے جس کا مقصد شام کو نئے حالات سے دوچار کرنا ہے اور یہ مسئلہ بھی جنیوا مذاکرات پر اثرانداز ہوا ہے۔ جنیوا مذاکرات ایسی حالت میں ہو رہے ہیں کہ ایران ، روس اورترکی نے آستانہ مذاکرات کے دائرے میں ایک سیاسی راہ حل تک پہنچنے اور شام کی قومی کانگریس کے انعقاد کے لئے عملی طور اہم قدم اٹھائے ہیں۔ واضح رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ، روس اور ترکی کے اعلی حکام نے گذشتہ بدھ کو شام کی صورتحال کا جائزہ لینے اور اس ملک کے بحران کے خاتمے کے لئے، روس کے شہر سوچی میں ایک اجلاس کا انعقاد کیا تھا۔
ایران کے صدر حسن روحانی ، روس کے صدر ولادیمیر پوتین اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے گذشتہ بدھ کو سوچی اجلاس کے اختتام پر ایک بار پھر شام کی ارضی سالمیت ، اتحاد، خودمختاری اور اقتداراعلی کے تحفظ پر تاکید کی اور اس بات پر اتفاق کیا کہ دہشتگردوں کے مکمل خاتمے تک ایک دوسرے سے تعاون جاری رکھیں گے - ایران ، روس اور ترکی کے سربراہوں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ وہ شامی عوام کے درمیان اتحاد کی بحالی ، شامی گروہوں کے درمیان شفاف ، منصفانہ ، آزاد اور وسیع البنیاد مذاکرات کے ذریعے اس ملک کے بحران کے سیاسی راہ حل کے حصول، شامی عوام کی حمایت سے آئین کی تیاری اور اقوام متحدہ کی مناسب نگرانی میں شام میں شرائط پرپورے اترنے والے افراد کی شرکت سے آزاد اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد میں شامی عوام کی مدد کریں گے-
شام پر داعش کا تسلط ختم ہونے کے بعد سوچی اعلامیہ ایک طرح سے بحران شام کا سیاسی ایجنڈہ ہے اور یہ شام کے عوام کے مطالبات اور عزم کے پیش نظر صحیح سفارتی راہ پر ترکی ، روس اور ایران کے گامزن ہونے کا ثبوت ہے- روحانی ، پوتین اور اردوغان کے درمیان ہونے والا سمجھوتہ شام کے سیاسی مستقبل کے لئے عوام کے مطالبات کا احترام ہے- ایران، روس اور ترکی کے اسٹریٹیجک تعاون اور کردار سے ، سفارتکاری اور اس کے ساتھ ہی شامی عوام کے مطالبات کا احترام شام کے سات سالہ بحران کی کلید ہے- اور یہ مہم سوچی میں شامی گروہوں کے درمیان قومی کانگریس میں پوری طرح واضح ہوگئی ہے- اس تناظر میں العمل الوطنی نامی مخالف گروہ کے وفد کے سربراہ محمود مرعی نے کہا کہ ہم سوچی اجلاس کی حمایت کرتے ہیں اور اس میں شریک ہوں گے کیونکہ اسے ہی بحران شام کے حل کا آغاز سمجھتے ہیں-
اس وقت پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ شام کی حکومت اور مزاحمتی گروہوں میں اتنی توانائی اور صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں سے مقابلے پر زیادہ توجہ مرکوز کرسکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں شام کی اہم ترین ضرورت جنیوا مذاکرات کے سلسلے میں سفارتی میکانیزم میں تیزی لانا ہے- شام میں جنگ بندی کو ضمانت فراہم کرنے والے تین ملکوں کا مشترکہ ہدف ، اس مقصد کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں حالات فراہم کرنا اور ایسی روشوں کا جائزہ لینا ہے جو شام کے عوام کے اتفاق رائے کے ساتھ ہی، شام میں قومی اتحاد اور ہم آہنگی کے ساتھ، بہتر مستقبل فراہم کرے۔ سوچی میں گذشتہ بدھ کو ہونے والا اجلاس اس نقطہ نگاہ سے، گذشتہ اقدامات کے تسلسل میں ہی ایک اور اہم قدم ہے کہ جو شام میں سیاسی استحکام کی جانب قدم بڑھانے کے لئے حالات سازگار بنائے گا۔