ریاض کے کشیدگی پھیلانے والے اقدامات کے بالمقابل ایران کی باہمی تعاون کی اسٹریٹیجی
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی نے منگل کی رات کو قومی ٹیلیویزن پر اپنے دوسرے دورہ صدارت کے سو روز مکمل ہونے پر حکومت کی کارکردگی سے متعلق گفتگو میں، حکومت کی بعض اہم ترین داخلہ اور خارجہ پالیسی کو بیان کیا۔
اس گفتگو میں صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ ایران کی خارجہ پالیسی دنیا کے ساتھ تعمیری اور باعزت روابط کے فروغ پر مبنی ہے اور ایران نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ علاقائی مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کئے جائیں۔ صدر روحانی نے کہا کہ سعودی عرب جیسی حکومتوں کے کشیدگی پھیلانے والے اقدامات کے مقابلے میں ایران کی پالیسی دیگر ملکوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قطر، عراق، شام اور لبنان میں ناکام ہونے اور اپنے اندرونی مسائل اور تنازعات کی وجہ سے سعودی عرب ہمارے ملک کا دشمن بنا ہوا ہے۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ سعودی عرب اپنی غلط پالیسیوں سے صرف اپنے لئے مسائل و مشکلات پیدا کر رہا ہے۔
صدر مملکت نے ریاض کی جنگ پسندانہ پالیسیوں اور آل سعود کے توسط سے کشیدگی پھیلانے والے اقدامات کی وجہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اپنے داخلی بحران اور علاقے میں پے در پے حاصل ہونے والی ناکامیوں کے باعث ایسے اقدامات کر رہا ہے۔
صدر روحانی کا اشارہ، علاقائی ناکامیوں، شام میں داخلی جنگ جاری رہنے میں سلمان اور اس کے بیٹے کی ناکامی، یمن کے دلدل میں دھنسنے، عراق میں سیاسی اور فوجی شکست اور لبنان اور قطر میں اسے حاصل ہونے والی سفارتی رسوائی کی جانب ہے۔ سعودی عرب میں جانشینی کے بحران کے ساتھ ہی علاقے میں اس کو حاصل ہونے والی ناکامیوں نے ریاض کو اس طرح سے مشکل میں گرفتار کردیا ہے کہ وہ تل ابیب سے نزدیک ہونے کے ذریعے اپنی بعض ناکامیوں کی تلافی میں کوشاں ہیں۔
صدر حسن روحانی نے ان جنگ بھڑکانے والے اقدامات کے ردعمل میں، کہ جو ان کے بقول واشنگٹن میں ایک شدت پسند حکومت کے بر سر اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی انجام پائے ہیں، کہا کہ تہران نے مذاکرات اور باہمی تعاون کی پالیسی کو اپنے ایجنڈے مین قرار دے رکھا ہے اور دنیا بین الاقوامی روابط میں اس روش کا خیرمقدم کرتی ہے۔
صدر مملکت نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے نہ صرف سفارتکاری کا، بلکہ ملک کی دفاعی صلاحیت میں پیشرفت کا بھی دفاع کیا ہے اور یہ دونوں ایک ساتھ آگے کی سمت گامزن ہیں۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے کل رات کی گفتگو کے بعض حصے میں اس امر پر تاکید کی کہ سفارتکاری میں تہران کو کامیابی خاص طور پر علاقے کی موجودہ صورتحال میں، صرف دہشت گرد گروہوں کے ساتھ جنگ کے میدان میں دفاعی کامیابیوں پر بھروسہ کرتے ہوئے حاصل ہوئی ہے اور اگر دہشت گردوں کے مقابلے میں مزاحمت اور دفاعی صلاحیت کا مظاہرہ نہ ہوتا تو بلا شبہ مذاکرات اور علاقائی و بین الاقوامی تعاون اورافہام وتفہیم ناممکن ہوجاتا ۔
روحانی نے اسی طرح مغربی ایشیاء کے موجودہ ماحول اور علاقے میں کشیدگی پیدا کرنے والی پالیسیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس نکتے پر تاکید کی کہ ملک کے اندر ماضی سے زیادہ اتحاد اور ہمدلی کی ضرورت ہے اور اس سلسلےمیں انہوں نے مجریہ ، مقننہ اور عدلیہ کے درمیان قربت اور اپنے ملک کی مسلح افواج کے ساتھ حکومت کے مسلسل انجام پانے والے مذاکرات پر بھی تاکید کی۔
صدر مملکت کے یہ بیانات درحققیت رہبر انقلاب اسلامی کے چند روز قبل کے بیانات کے ترجمان ہیں کہ جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ایران میں صرف ایک آواز سنی جانی چاہئے۔ اس بنا پر اس وقت ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ ملک کے تمام حکام اس اتحاد و وحدت کے مسئلے کو درک کرتے ہوئے اس بات میں کوشاں ہیں کہ ان بعض تفرقہ انگیزیوں کے مقابلے میں ڈٹ جائیں جو کشیدگی یا بدگمانی پھیلنے کا باعث بنیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کی گفتگو کا مجموعی جائزہ لینے سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ اس حقیقت کو درک کرکے کہ ایک ملک کی خارجہ پالیسی، داخلی پالیسی کا ہی تسلسل ہے، اس نکتے پر تاکید ہے کہ ایران اندر سے طاقتور اور مضبوط ہوچکا ہے اور ہمہ جانبہ توسیع و فروغ پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے اور اسے علاقے میں استحکام کی بازگشت کے مقصد سے تہران کے قوی و توانا ہونے کا پیش خیمہ قرار دیا جاسکتا ہے- اس وقت یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بارہویں حکومت کس طرح سے اس اسٹریٹیجی پر آئندہ چار برسوں میں عمل کرے گی-