Dec ۰۱, ۲۰۱۷ ۱۷:۱۰ Asia/Tehran
  • سعودی عرب کی ناپسندیدہ پالیسیوں کے نتائج

اقوام متحدہ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل جفری فلٹمین نے امریکہ کی خارجہ تعلقات کونسل میں خطاب کرتے ہوئے سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کو ایک ناپسندیدہ پالیسی قرار دیا ہے-

مجموعی طور پر ناپسندیدہ خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ مالی ، سیکورٹی اور سیاسی لحاظ سے اس کی زیادہ قیمت چکانی پڑتی -

سعودی عرب کی خارجہ پالیسی ایک ایسی پالیسی ہے جس کی اسے بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے- سعودی عرب کی خارجہ پالیسی مالی لحاظ سے اب تک اس کے لئے کافی مہنگی پڑی ہے- سعودی عرب کہ جو دنیائے عرب کا سب سے بڑا امیر ملک ہے اسے اپنی جنگ پسند اور مداخلت پسندانہ خارجہ پالیسی کے سبب بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑرہا ہے- یہاں تک کہ اس ملک کو گذشتہ تین برسوں کے اندر تقریبا دوسوارب ڈالر بجٹ خسارا ہوا ہے- امریکی انسٹی ٹیوٹ برنشٹائن نے اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ بجٹ خسارہ اس بات کا سبب بنا کہ سعودی عرب کو خزانے سے بھاری رقم لینی پڑی یہاں تک کہ اس کا تقریبا سات سو پچاس ارب ڈالر کا خزانہ کم ہوکر پانچ سو تینتالیس ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے-

سعودی عرب کو اپنی خارجہ پالیسی کی سیکورٹی لحاظ سے بھی قیمت چکانی پڑی ہے - یمن کے خلاف سعودی عرب کی جنگ اس بات کا موجب بنی کہ یمن کی فوج اور رضاکار فورس اپنی عسکری طاقت و صلاحیت کو بڑھاتے ہوئے آل سعود کی جارحیتوں کے جواب میں اپنا دفاع کرتے ہوئے سعودی عرب کے مختلف علاقوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنائے- شام میں سعودی عرب کی جانب سے دہشتگردوں کی حمایت بھی اسے دہشتگردانہ خطرات سے نہ بچا سکی جبکہ یمن کے خلاف اس کی جنگ اس بات کا باعث بنی کہ آل سعود پر انسانی حقوق کے عالمی اداروں کا دباؤ بڑھ گیا یہاں تک کہ یمن کے خلاف سعودی سربراہی والے اتحاد کا نام اقوام متحدہ نے بچوں کے حقوق پامال کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کردیا ہے-

آل سعود کو سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے -اقوام متحدہ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل جفری فلٹمین کی جانب سے سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کو نامطلوب قرار دینے کی وجہ بھی اس کے سیاسی اخراجات رہے ہیں- آل سعود کے مداخلت پسندانہ اور جنگ پسندانہ اقدامات اور مجموعی طورپر اس کی خارجہ پالیسی اس ملک کی علاقائی حیثیت کمزور ہونے کا باعث بنی ہے- درایں اثنا اقوام متحدہ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل جفری فلٹمین نے امریکہ کی خارجہ تعلقات کونسل میں خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ سعودی عرب کی سربراہی میں یمن پر حملے کے لئے اتحاد تشکیل پانے کی ایک وجہ ، ایران کے اثر و نفوذ کو روکنا تھا تاہم ایران کا اثر و نفوذ اس وقت جنگ یمن شروع ہونے سے پہلے سے بہت زیادہ بڑھ چکا ہے-

 اس موضوع کو قطر کے ساتھ تعلقات میں سعودی عرب کی روش میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے- قطر کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات گذشتہ سات مہینوں سے کشیدگی کا شکار ہیں اور یہ تہران - دوحہ تعلقات مضبوط ہونے نیز سعودی عرب کے ایک اور حریف ترکی کا قطر میں نفوذ بڑھنے کا باعث ہوا ہے اور فلٹمین نے اس موضوع پر بھی تاکید کی ہے - لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری پر استعفے کے لئے دباؤ ڈالنا سعودی عرب کی تازہ ترین غلطی تھی کیونکہ سعد حریری نے بیروت واپس آنے کے بعد ایک طرف اپنا استعفی واپس لے لیا اور دوسری جانب ریاض کے خلاف لبنانیوں کی وحدت و یکجہتی سے ثابت ہوگیا کہ لبنانی اپنے داخلی امور میں سعودی عرب کی مداخلت کو قبول نہیں کرتے- درایں اثنا سعودی عرب کو سعد حریری کو بیروت واپس بھیجنے کے لئے علاقے سے باہر کی طاقتوں کا دباؤ بھی جھیلنا پڑا- سعودی عرب کی ناپسندیدہ خارجہ پالیسی کے منفی نتائج کے باوجود ریاض اپنی خارجہ پالیسی کی اصلاح  اور خارجہ فیصلوں میں عقل سے کام لینے کے بجائے عرب اداروں کو استعمال کرنے کے لئے نمائشی طریقوں  کا سہارا لے رہا ہے-

 

ٹیگس