Dec ۰۲, ۲۰۱۷ ۱۷:۵۸ Asia/Tehran
  • ایران کے خلاف ریاض کے پروپیگنڈے، سعودی عرب کی مزید رسوائی کا باعث

سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ایک بار پھر ایران کے خلاف بے بنیاد دعوے دوہراتے ہوئے کوشش کی ہے کہ مسئلے کو الٹا ظاہر کریں۔ الجبیر نے اٹلی میں بحیرہ روم کی تیسری بین الاقوامی کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے سیاسی طور پر مظلوم نمائی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والا ملک ہے اور اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شرکت کی ہے۔

الجبیر نے کہا کہ سعودی عرب نے انتہا پسندانہ افکار سے مقابلے کے دائرے میں مرکز اعتدال قائم کیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ ریاض کے پاس دہشت گردی کے مالی ذخائر کا خاتمہ کرنے کے تعلق سے منصوبے ہیں۔ انھوں نے اسی طرح ایران کے خلاف مضحکہ خیز بیان دیتے ہوئے کہا کہ ایران نے القاعدہ اور داعش گروہوں کی سرگرمیوں کے لئے سہولتیں فراہم کی ہیں۔ الجبیر نے اسی کے ساتھ یہ بھی دعوی کیا کہ اسرائیل کے ساتھ ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہے اور ہم امن کے عمل کے منتظر ہیں۔

گذشتتہ چند برسوں کے دوران سعودی عرب کی جانب سے بہت زیادہ متضاد رویوں کا مشاہدہ کیا گیا ہے لیکن گذشتہ چند مہینوں کے دوران حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کرنے کی اس کوششوں میں بھی بہت زیادہ تیزی آئی ہے۔ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے بھی حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ کے ساتھ انٹرویو میں یہ دعوی کیا ہے کہ سعودی عرب میں موجود انتہا پسندی ، ایران کے اسلامی انقلاب کے نتائج میں سے ہے۔ تاہم محمد بن سلمان نے اس انٹرویو میں کم از کم یہ اعتراف بھی کیا کہ سعودی عرب، انتہا پسند سعودیوں کے اصلی مرکز میں تبدیل ہوگیا ہے لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کوشش کی کہ سینکڑوں دلیل و ثبوت پیش کرکے اس انتہا پسندی کا باعث ایران کو قرار دیں۔ یقینا یہ وہی طرز فکر ہے جو امریکہ اور صیہونی حکومت کا ہے۔ سعودی شہزادے اپنے کھوکھلے بیانات اور مواقف کے ذریعے صرف یہ ظاہر کر رہے  ہیں کہ انہیں نہ تو اسلامی انقلاب کی ماہیت کا کچھ علم ہے اور نہ ہی وہ سیاست کرنے کی روش سے آشنا ہیں۔

سعودی ولیعہد کے دعووں سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ وہ خطے کی صورتحال سے بالکل نابلد ہیں۔ البتہ اس کی یہ ناواقفیت ایک فطری چیز ہے کیونکہ ایک تو اس کی عمر کم ہے اور دوسرے ناتجربہ کار بھی ہے۔ اس لئے اسے ایسے موضوعات پر بات ہی نہیں کرنی چاہئے۔ بہرحال اس کی کوششیں اس اعتبار سے توجہ طلب ہیں کہ ایسا نظر آتا ہے کہ اس نے جھوٹ بولنے، دوسروں پر الزام لگانے اور حقائق کو مسخ کرکے پیش کرنے کا طریقہ بہت اچھی طرح سے سیکھا ہے۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس سعودی شہزادے کی نظر میں اسلامی انقلاب اور اس نسل پرستانہ انتہا پسندی اور دہشت گردی  کے درمیان کونسی قدر مشترک پائی جاتی ہے جس کی ترویج سعودی عرب کے درباری مفتی اور سعودی بادشاہت کو قائم کرنے والے کر رہے ہیں۔

آج سب لوگ حتی امریکہ کے دورے سے واپس آنے والا یہ شہزادہ بھی اس بات سے آگاہ ہے کہ دہشت گرد گروہ داعش کے اسلام مخالف افکار و نظریات کی جڑ وہابیت اور سعودی عرب کے مفتی ہیں۔ ان مفتیوں کے فتووں کی وجہ سے دنیا میں اسلام کی تصویر غلط انداز میں پیش کی گئی ہے اور شام، عراق، یمن اور دوسرے اسلامی ممالک میں ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ سعودی حکام اس وقت دلدل میں دھنس چکے ہیں اور وہ اس سے باہر نکلنےکے لئے جس قدر زیادہ ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اتنا ہی زیادہ اس میں دھنستے جا رہے ہیں۔ سعودی حکام کو بے بنیاد لفاظی اور بیان بازی سے کام لینے کے بجائے اپنے ماضی اور حال پر نظر ڈالنی چاہئے، ان کو یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور یہ گندا کھیل کہاں تک کھیل سکتے ہیں۔

محمد بن سلمان اسلامی انقلاب کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے اور انھوں نے اس پر انتہا پسندی کا الزام لگا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ حقیقی معنی میں بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔ اسلامی انقلاب شروع سے لے کر اب تک کبھی بھی ملت اسلامیہ کے درمیان انتہاپسندی، تشدد اور فرقہ واریت کو ترویج دینے کے لئے کوشاں نہیں رہا ہے۔ اسلامی انقلاب تسلط پسندی کے مقابلے، اورعزت اور خودمختاری کے راستے پر گامزن ہے اور اسلامی انقلاب کے گرویدہ افراد درحقیقت ایسے افراد ہیں جو اس انقلاب کا صحیح ادراک رکھتے ہیں۔ البتہ اس سعودی شہزادے جیسے بعض افراد ایسے بھی ہیں جن کی نظر میں سیاسی ترقی کا دائرہ امریکہ کی حمایت کے حصول اور خطے میں جنگوں کی آگ بھڑکانے کے لئے ہتھیار خریدنے کے عمل تک محدود ہے۔ سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان تیل سے مالامال اس ملک میں تبدیلی لانے کے مقصد سے اس عہدے پر براجمان ہوئے ہیں اور وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انھوں نے صحیح راستے کا انتخاب کیا ہے لیکن ان کے غیر سنجیدہ افکار اور اقدامات سے اس کی نفی ہوتی ہے۔  

ٹیگس