ایٹمی سمجھوتے کے مشترکہ کمیشن کے اجلاس کے موقع پر سلامتی کونسل میں گوٹرش کی رپورٹ
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل آنٹونیو گوٹرش نے سلامتی کونسل میں اپنی رپورٹ میں ایران کی جانب سے جامع مشترکہ ایکشن پلان کی مکمل پابندی کیے جانے کی خبر دی ہے-
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنی اس رپورٹ میں ایران کی جانب سے ایٹمی سمجھوتے کی پابندی کیے جانے کی تصدیق نہ کرنے کے امریکی صدر کے اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کے اقدام نے اس سمجھوتے کے مستقبل کو مبہم بنا دیا ہے اور پابندیوں کی بحالی ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے کوخطرے سے دوچار کرسکتی ہے-
آج بروز بدھ ویانا میں ایٹمی سمجھوتے کے مشترکہ کمیشن کے اجلاس کے موقع پر اس رپورٹ کو پیش کیا جائے گا جو ایک بار پھر ایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں امریکہ کے جھوٹے دعؤوں اور ٹرمپ کی جانب سے ایران کے خلاف ماحول تیار کرنے کی سازش کو آشکار کردے گی-
ایٹمی سمجھوتہ بتدریج ایٹمی پابندیوں سے بڑے موضوع میں تبدیل ہورہا ہے- ٹرمپ نے ایٹمی سمجھوتے کے بارے میں فیصلے کو کانگریس کے حوالے کردیا ہے - قانون کے مطابق کانگریس کے پاس اپنا فیصلہ سنانے کے لئے دو مہینے کا وقت تھا جو کچھ دنوں بعد ختم ہوجائے گا اور اس کے بعد پندرہ دسمبر کو امریکی صدر جو فیصلہ چاہیں گے کریں گے- بین الاقوامی امور میں ایران کے نائب وزیرخارجہ سید عباس عراقچی نے پیر کو مغربی ایشیا میں علاقائی سیکورٹی اور بڑی طاقتوں کے اجلاس کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ اور امریکہ کی نئی حکومت کا کہنا ہے کہ ایٹمی سمجھوتے کو ختم کردینا چاہئے جو کہ ایران کے مضبوط ہونے کا باعث بنا ہے تاہم یورپ اور سلامتی کونسل اس کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں-
عباس عراقچی کا خیال ہے کہ جو لوگ سوچتے ہیں کہ یورپ کی جانب سے ایٹمی سمجھوتے کی حمایت صرف اقتصادی مفادات کے لئے ہے وہ سخت غلطی میں ہے کیونکہ یورپ کو ایٹمی سمجھوتے سے زیادہ امریکہ سے فائدہ ہے اور یورپ ایران کی چھوٹی منڈی کے مقابلے میں امریکہ کی انیس ٹریلین ڈالر کی منڈی سے ہرگز دست بردار نہیں ہوگا-
لگزمبرگ میں یورپی وزراء کی کونسل کے حالیہ اجلاس میں کہا گیا ہے کہ ایٹمی سمجھوتہ، یورپ کی سیکورٹی کے لئے بہت اہم ہے- اس کے بعد سے تمام یورپی حکام اس امر کی جانب اشارہ کررہے ہیں کہ ایٹمی سمجھوتہ یورپ کی سیکورٹی سے مربوط ہے لیکن ایٹمی سمجھوتے میں فریق مقابل اسلامی جمہوریہ ایران ہے کہ جس نے ایٹمی سمجھوتے کو نہ صرف یورپ کے مفاد کے لئے یا امریکہ کے دباؤ میں قبول نہیں کیا ہے بلکہ بحالی اعتماد کے لئے اور اس فرضی مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لئے سلامتی کونسل کی حمایت سے چند فریقی معاہدہ کیا جبکہ ابھی کچھ ایسے مسائل بھی ہیں جو ایٹمی سمجھوتے کی اصل اور روح کے منافی ہیں- البتہ ایٹمی سمجھوتے پر مکمل عمل درآمد میں رکاوٹیں ڈالنے کا مقصد واضح ہے -
امریکہ اور بعض یورپی ممالک کی جانب سے گفتگو کا نیا باب کھولنے کا مقصد ایران کی دفاعی صلاحیتوں کو کنٹرول کرنا اور ایران کو علاقائی پالیسیاں ڈکٹیٹ کرانا ہے لیکن ایران اپنی دفاعی صلاحیتوں خاص طور پر میزائلی طاقت کے بارے میں کسی طرح کے مذاکرات نہیں کرے گا-
واضح ہے کہ اگرامریکہ یا یورپ سیکورٹی اور دفاعی موضوعات کو اٹھائیں گے تو ایٹمی سمجھوتے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے - مسلمہ امر یہ ہے کہ اس عمل میں ایٹمی سمجھوتے کے راستے پر دواہداف کے تحت نہیں چلا جا سکتا- بظاہریورپی ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکلنے میں امریکہ کا ساتھ نہیں دینا چاہتے -
برطانیہ کے وزیرخارجہ بوریس جانسن نے بھی تہران میں اپنے مذاکرات میں اسی موضوع کو دہرایا ہے- لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ایٹمی سمجھوتہ ایک اجتماعی سمجھوتہ ہے اور بین الاقوامی معاہدوں اور اشتراک عمل کا اصول یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی عالمی سمجھوتے کی سارے فریق پابندی کرتے ہیں اور اپنے وعدوں پر عمل کرتے ہیں-