یمن میں سعودی عرب کے جرائم کا محور، بچوں کا قتل عام
اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی فنڈ یونیسیف نے یمن میں اس ملک کے بچوں پر ہونے والے سعودی عرب کے جرائم کے وسیع نقصانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس جنگ کو " بچوں کے خلاف جنگ" کا نام دیا۔
2015 سے یمن کے خلاف سعودی عرب کی جارحیت کے نتیجے میں اب تک چودہ ہزار سے زائد افراد جاں بحق، دسیوں ہزار یمنی زخمی اور لاکھوں ہزار افراد بے گھر ہوچکے ہیں کہ جن میں سے زیادہ تر بچے ہیں۔ اس سلسلے میں محاصرہ یمن کے مخالف فعال رکن عبداللہ شعبان کہتے ہیں " ہر دس منٹ میں ایک بچہ، مختلف بیماریوں کے نتیجے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو رہا ہے۔"
سعودی عرب نے، جو وہابیت اور تکفیری و سلفی عقائد کی ترویج کرنے والا اور اسے فروغ دینے والا ملک ہے بچوں کا قتل عام کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اپنے جرائم اور بربریت کے انجام دینے میں کسی حد اور حدود کا قائل نہیں ہے اور صرف اپنے جرائم میں شدت لاکر اپنی پرتشدد ماہیت کے اظہار کے درپے ہے۔ اس طرح کا رویہ، بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں نازی ازم، فاشزم اور صہیونیت سے وابستہ پرتشدد کارروائیوں کی یاد آوری کرتا ہے۔ آل سعود حکومت نے مارچ 2015 سے امریکہ اور علاقے کے بعض عرب ملکوں کی مدد وحمایت سے یمن پر حملہ کیا تھا اور اب تک یہ غریب عرب ملک شدید محاصرے میں ہے ۔
یمن کے عام شہریوں خاص طور پر بچوں پر سعودی اتحاد کے حملوں کے نتائج کے بارے میں یونیسیف کے اعتراف کے باوجود ، اقوام متحدہ نے ان حملوں کو روکنے کے لیے نہ صرف کوئی مناسب اقدام انجام نہیں دیا ہے بلکہ اس ادارے کی انسانی حقوق کونسل اب تک یمن سے متعلق سعودیوں کے جرائم کے بارے میں تحقیقات کے لئے ایک آزاد بین الاقوامی کمیٹی تشکیل دینے میں بھی ناکام رہی ہے۔
کچھ عرصہ قبل ہالینڈ نے بعض یورپی ملکوں کی نمائندگی میں ، یمن میں سعودیوں کے جرائم کے بارے میں تحقیقات کے لئے ایک آزاد بین الاقوامی کمیٹی کی تشکیل کا منصوبہ پیش کیا تھا تاہم سعودی عرب نے امریکہ اور برطانیہ کی مدد سے اس میں روڑے اٹکائے اور اسے عملی نہیں ہونے دیا۔ اس سے قبل بھی اقوام متحدہ نے ایک رپورٹ شائع کرکے یمن کے اسکولوں اور اسپتالوں پر بمباری کے سبب، سعودی عرب کو بچوں کے قاتل ملکوں کی فہرست میں قرار دیا تھا۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سعودی عرب کی سربراہی میں قائم اتحاد، گذشتہ برسوں کے دوران ہزاروں بچوں کی موت واقع ہونے اور ان کے زخمی ہونے کا ذمہ دار ہے۔ لیکن اس کے کچھ دن بعد اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل بان کی مون نے سعودی عرب کا نام اس فہرست سے خارج کردیا تھا کیوں کہ ریاض نے دھمکی دی تھی کہ اگر بچوں کے حقوق پامال کرنے والے ملکوں کی فہرست سے اس کا نام نہیں نکالا گیا تو وہ اقوام متحدہ کی مالی امداد بند کردے گا۔
اگرچہ اقوام متحدہ کے نئے سیکریٹری جنرل آنٹونیو گوترش کے زمانے میں رائے عامہ کے دباؤ کے سبب سعودی عرب کا نام ایک بار پھر بچوں کے حقوق پامال کرنے والے ملکوں کی فہرست میں شامل ہوا ہے تاہم عملی طور پر ان کے دور میں بھی اب تک سعودی عرب کے خلاف اس لحاظ سے کوئی دباؤ یا اقدام عمل میں نہیں لایا گیا ، گویا سعودی عرب نے کوئی جرم کیا ہی نہیں ہے۔
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے دعویداروں نے یمن پر سعودی عرب کی جارحیتوں پر خاموشی سادھ کر، سعودی عرب کے اتحاد کی جنگی مشینری کو جاری رکھا ہے۔ سعودی عرب کی جارحیت اور یمن کا محاصرہ ختم کرنا صرف جنگ بندی کی راہ سے میسر ہوسکتا ہے لیکن یمن پر سعودی عرب کی جارحیت کے جاری رہنے سے مذاکرات کا کوئی روشن اور مثبت مستقبل تصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جارحیت اور محاصرے کا جاری رہنا مفاہمت اور جنگ بندی سے ہرگز ساز گار نہیں ہے۔
آل سعود کی جانب سے یمن میں جنگ بندی کی مخالفت اور اس راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنےسے عالمی رائے عامہ اس امر کی طرف متوجہ ہوگئی ہے کہ سعودی عرب ہی جنگ بندی میں بنیادی رکاوٹ ہے اور اپنی خلاف ورزیوں اور مداخلتوں سے یمن میں بحران کے جاری رہنے کا سبب ہے-