ایران کے خلاف سعودی عرب کے الزامات، خود اس کی رسوائی کا سبب
کہتے ہیں کہ جو دوسرے پر ناروا الزام لگاتا ہے وہ اپنے عیوب کی پردہ پوشی کے لئے حقیقت سے فرار کرتا ہے۔ اور اس وقت سعودی حکام اس کا مکمل مصداق ہیں۔
سعودی عرب کی وزارت داخلہ کے ترجمان منصورالترکی نے بے بنیاد الزامات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں ایسے دہشت گردوں کا سامنا ہے جن کا ایران سے تعلق ہے- الترکی نے پیر کے روز ایک پریس کانفرنس میں یہ دعوی کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے حامی ممالک اپنے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں چھوڑتے اور ایسے گروہوں کو تشکیل دیتے ہیں جو ان کی نیابت میں تمام دہشت گردانہ کارروائیوں کو انجام دیتے ہیں اور ہم یمن میں حوثیوں اور لبنان میں حزب اللہ کے توسط سے اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں -
سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے بھی کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں ایران، حزب اللہ اور شام کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کئے تھے۔ ان خیالات کا اظہار سعودی حکام کی جانب سے ایسے میں کیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب ، شام اور علاقے میں دہشت گرد گروہوں کی مالی اور فکری حمایت کرنے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔ جس طرح موساد اور سی آئی اے کی فوجی ٹریننگ کی مدد سے القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروہ وجود میں آئے، اسی طرح علاقے کے بعض عرب ملکوں منجملہ سعودی عرب کے پیسے کے ذریعے تکفیری گروہ وجود میں آئے ہیں اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے۔
درحقیقت سعودی عرب، علاقے پر مسلط کردہ دہشت گردی کو تشکیل دینے والی زنجیر کا اصلی حلقہ شمارہوتا ہے۔ البتہ ان جھوٹے دعووں نے ان کو بےجا فخر سے دوچار کردیا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو سیکورٹی اور جمہوریت کا ایک ماڈل سمجھتے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے پیر کے روز اپنا اداریہ " سعودی عرب کے ریاکار ولیعہد" کے عنوان سے شائع کیا جس میں بن سلمان کے اقدامات منجملہ دہشت گردی اور مالی بدعنوانیوں سے مقابلے کا دعوی کرتے ہوئے لکھا کہ سعودی ولیعہد نے معاشی کفایت شعاری کے بجٹ کے ساتھ ساتھ ، تیس کروڑ ڈالر کا ایک محل فرانس میں خریدا اور اس سے پہلے بھی وہ پچپن کروڑ ڈالر کا ایک جہاز بھی اپنے لئے خرید چکے ہیں۔
خفیہ دہشت گردی کے بارے میں سعودی عرب کی وزارت داخلہ کے ترجمان کا مضحکہ خیز اور فریب دینے والا حالیہ بیان بھی ایک نیا شوشہ ہے۔ بلاشبہ دہشت گردی تمام علاقوں کے لئے سیکورٹی اور سیاسی لحاظ سے تشویش کا باعث ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ریاض اس کوشش میں ہے کہ گیند ایران کی زمین میں ڈال کر اور بے بنیاد دعوے کرکے، حقیقت سے فرار کا راستہ اختیار کرے۔ سعودی وزارت داخلہ کا یہ بیان ایسے میں سامنے آیا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب دونوں ہی، علاقے میں دہشت گردی کو وجود میں لانے میں برابر کے شریک ہیں جبکہ نائن الیون کے واقعے میں سعودی عرب کا کردار بھی کسی پر پنہاں نہیں ہے، لیکن سعودی عرب نے کوشش کی ہے کہ امریکہ کےساتھ اربوں ڈالر کے معاہدے پر دستخط کرکے، مسئلے کو صاف کردے۔ امریکہ کے نقطہ نظر سے بھی سعودی عرب کا کردار ایک دودھ دینے والی گائے کی مانند ہے کہ جو جب تک دودھ دیتی رہے اسے دوہتے رہو۔
ریاض ، ایران کے خلاف جو الزامات عائد کر رہا ہے اس سے امریکہ ، اسرائیل اور وہ افراد غلط اور ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں کہ جو اس گندے سیاسی اور سیکورٹی کے کھیل میں شامل ہوکر اپنے ناجائز مفادات کی جستجو میں ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان الزام تراشیوں کا نتیجہ ، کیا علاقے میں امن و سلامتی کی بازگشت ہے؟ جبکہ سعودی عرب کی تسلط پسندی کے نتیجے میں صرف قتل کا بازار گرم ہے اور اس کی واضح ترین مثال یمن کی جنگ ہے۔