شام میں داعش کی شکست، اسرائیل کے لئے ایک اور ڈراؤنا خواب
شام میں داعش اور دیگر دہشت گردوں کے خلاف ایران اور روس کی مدد سے حالیہ دنوں میں جو کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں ان سے اسرائیل، ایک اور ڈراؤنے خواب سے دوچار ہوگیا ہے۔
تل ابیب کو اس وقت شام میں داعش اوردیگر دہشت گرد گروہوں کی ناکامی کے سبب بہت تلخ نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے اس بناء پر وہ علاقائی توازن تبدیل کرنے کے درپے ہے۔ بحران شام کے حل سے متعلق ایران کو بے دخل کرنا بھی صیہونی حکومت کے جملہ اہداف میں سے ہے۔ اور اسرائیلی وزیر اعظم کے تازہ ترین بیان سے بھی اسی مسئلے کی تائید ہوتی ہے۔ صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بینامین نتنیاہو نے ایران پر، شام میں فوجی اڈہ قائم کرنے کی کوشش کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کو اس وقت شمالی، جنوبی اور مشرقی علاقوں میں مشکلات کا سامنا ہے اور تل ابیب ہرگز ایسا ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔
لیکن اسرائیل کی مشکل اس سے زیادہ ہے جو نتنیاہو نے بیان کی ہے حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ، شام میں بھاری رقم خرچ کرکے اور متعدد منصوبے اور سازشیں کرنے کے باوجود بھی، پے در پے شکستوں کے متحمل ہوئے ہیں اور اب انہیں مقبوضہ فلسطین کے مسئلے میں، مزاحمت اور ناکامی کا سامنا ہے۔ البتہ وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کی آمد نے، اسرائیل اور خطے کی بعض دیگر جارح حکومتوں کے لئے بہت سی امیدیں پیدا کردیں لیکن وہ شام میں مزاحمتی اہلکاروں کی کامیابی کے عمل پر اثرانداز نہ ہوسکیں۔ اسرائیل کے خفیہ انٹلی جنس ادارے کے سربراہ "ھرٹسی ھلوی" نے جون 2016 میں کہا تھا کہ اسرائیل نہیں چاہتا کہ شام کے حالات کا خاتمہ داعش کی شکست پر ہوجائے۔
اس اظہار خیال کے دو مہینے کے بعد صیہونی اخبار یروشلم پوسٹ نے بھی ایک مقالے میں لکھا تھا کہ داعش کو کمزور حالت میں بھی باقی رکھنا اسے مکمل طور پر ختم کرنے سے بہتر ہے کیوں کہ یہ گروہ دنیا بھر کے ملکوں سے انتہاپسند مسلمانوں کو جذب کرنے کا پوائنٹ اور مرکز ہے۔ ان رضاکاروں کی آسانی سے شناسائی کرکے ان سے خفیہ معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ یہ افراد عام طور پر تخریبی مہارتوں کو شام اور عراق میں سیکھتے ہیں اور زیادہ تر وہ ہیں جو اپنے ملکوں کو واپس نہیں لوٹتے ہیں-
صیہونی اخبار ہاآرٹص نے بھی ایک تجزیہ " بشار اسد کی کامیابی اسرائیل کے لئے خطرناک ہے، اسرائیل کا ٹھوس موقف ،" کے عنوان سے شائع کیا تھا جس میں اس نے لکھا تھا کہ اسرائیل چاہتا ہے کہ شام میں جنگ، پور قوت کے ساتھ جاری رہے- لیکن اسرائیل کا یہ خواب عملی نہ ہوسکا۔ ایسے حالات میں اس غاصب حکومت کی واحد امید داعش کے بعد عراق میں بحران میں شدت لانا اور عراقی کردستان کی علیحدگی کے لئے ریفرنڈم کرانے کی ترغیب دلانا اور اس کے لئے علیحدگی پسندوں کی حمایت کرنے پر اپنی توجہ مبذول کرنا تھا، تاہم اس کا یہ سناریو بھی شکست سے دوچار ہوا۔ تازہ ترین سناریو میں اسرائیل نے سعودی عرب کے ساتھ رابطہ قائم کرکے کوشش کی ہے کہ ایران سے بھرپور مقابلہ کرنے کے لئے، موجودہ حالات سے پورا فائدہ اٹھائے۔
صیہونی حکومت کے ان تما اقدامات سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ وہ شام میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ ہونے کے ساتھ یہ نہیں چاہتا کہ مزاحمت و استقامت باقی رہے اور فلسطین کا مسئلہ، ایک بار پھرعالم اسلام کی خبروں کی سرخیوں میں چھا جائے اور اسلامی ملکوں کے اولین مسئلے میں تبدیل ہوجائے۔ لیکن اسرائیل کے مذموم عزائم کے برخلاف یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور اسرائیل اس وقت مکمل طور پر گوشہ نشیں ہوچکا ہے۔ نتنیاہو اس وقت، علاقے میں ایران کے خطرہ ہونے اور اس کی مداخلت جیسے پروپگنڈے اور الزام تراشیوں کے ذریعے اس کوشش میں ہیں کہ مزاحمت کے مقابلے میں حاصل ہونے والی پے درپے شکستوں کے باعث اس تعلق سے اپنے غم و غصہ کو چھپا سکیں۔