پاکستانی وزیراعظم کی جانب سے ٹرمپ کے الزامات کا جواب
پاکستان کے وزیراعظم نے امریکی صدر ٹرمپ کے حالیہ الزامات کا جواب دیتے ہوئے اسے غلط اور ناقابل فہم قرار دیا ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم خاقان عباسی نے اپنے ملک کے خلاف امریکی صدر ٹرمپ کے بیانات کوسمجھ سے باہر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس ملک کی قومی سلامتی کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے- درایں اثنا پاکستان کے وزیرخزانہ نے اسلام آباد کے لئے امریکہ کی امداد بند کئے جانے کی خبر دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ امریکہ کے اس اقدام کا پاکستان کی اقتصادی صورت حال پر کوئی اثر نہیں پڑے گا- امریکی صدر ٹرمپ نے ٹوئیٹر پر دوہزار اٹھارہ کے اپنے پہلے بیان میں ایک بار پھر پاکستان پر تشدد پسند انہتاپسندوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے دھمکی دی کہ وہ اس ملک کی امدد بند کررہے ہیں- امریکی صدر نے اس ملک کی نئی اسٹریٹیجی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف اسی جیسے الزامات عائد کئے تھے جس پر پاکستانی حکومت اور عوام نے سخت ردعمل ظاہر کئے تھے-
افغانستان میں امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعاون اور دہشتگردی کے سلسلے میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان اختلافات کا تعلق جارج بش کے دور سے ہے- دوہزارچھے میں جب امریکی فوج ، افغانستان میں دیوار سے لگ گئی تو امرکہ کے فوجی و سیاسی حکام نے پاکستان پر افغانستان میں انتہا پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکی فوج کے ساتھ تعاون اور دہشتگردی کے سلسلے میں دہرا رویہ اختیار کرنے کا الزام لگایا- اگرچہ پاکستان کے سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف نے دوہزار ایک میں افغانستان پر امریکہ کے حملے میں واشنگٹن کے ساتھ تعاون کیا اور بش سے غیرنیٹو اتحادی کا لقب حاصل کیا تاہم یہ تعاون بہت جلد واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان اختلاف اور تضاد میں تبدیل ہوگیا-
پاکستان میں فوجی مسائل کے ماہر طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ امریکہ افغانستان میں امن نہیں چاہتا اوراس اس ملک میں اپنی موجودگی کو مضبوط بنانے کی بھرپور کوشش کررہا ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہا ہے- پاکستان کو توقع تھی کہ وہ افغانستان میں امریکہ کے ساتھ تعاون کر کے افغانستان کے سیاسی ڈھانچے میں طالبان کی پوزیشن مستحکم کرنے، ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کرانے اور اس ملک میں افغانستان کے اثر و نفوذ کو ختم کرانے جبیسے اہداف حاصل کرلے گا تاہم عملی طور پر نہ صرف ایسا نہیں ہوا بلکہ امریکہ نے ثابت کردیا ہے کہ اس نے علاقائی پالیسی میں پاکستان کی جگہ ہندوستان کو دے دی ہے اور اس پر اسلام آباد کا غصہ بھڑک اٹھا ہے-
سیاسی امور کے ماہر تجزیہ نگار کین ہیلینن کہتے ہیں کہ : امریکی حکام کو اس مسئلے پر توجہ دینا چاہئے کہ طالبان کے ساتھ جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی امریکی پالیسی کا پوری طرح الٹا نتیجہ بھی نکل سکتا ہے اوراسلام آباد چین کی جانب مائل ہوسکتا ہے-
بہرحال پاکستان پردباؤ ڈالنے کے لئے امریکی حکومت کا سب سے بڑا ہتھکنڈہ اسلام آباد کو دی جانے والی فوجی اور مالی امداد روکنا یا کم کرنا ہے اور وہ یہ امداد بند کرکے پاکستان سے خاص طور سے افغانستان کے سلسلے میں اپنے مطالبات منوانا چاہتا ہے- لیکن اس ملک کے پیچیدہ حالات اور اس ملک میں سرگرم مختلف گروہوں خاص طور سے طالبان پر پاکستان کے اثرونفوذ کے پیش نظر پاکستان کی نظر میں ان اختلافات میں شکست امریکہ کی ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ وہ افغانستان میں امریکہ کی شکست کے سلسلے میں وائٹ ہاؤس کو انتباہ دیتا رہا ہے-
اسی کے مدنظر پاکستان کے سیاسی حلقوں نے اس ملک کی حکومت کو واشنگٹن کے ساتھ تعاون کے نتائج کے سلسلے میں خبردار کیا ہے اور اس ملک کے عوام کے سہارے مستقل طور پر کوئی طریقہ کار اختیار کرنا چاہتا ہے کیونکہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کی وابستگی اس بات کا باعث بنی ہے کہ وہ فوجی و اقتصادی مدد کے ذریعے اسلام آباد حکومت کی پالیسیوں پر اثرانداز ہونا چاہتا ہے-