سعودی عرب میں وسیع پیمانے پر احتجاج اور مظاہرین کی سرکوبی
سعودی عرب میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔
گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران سعودی عرب کے سینکڑوں عوام نے ریاض میں سعودی ولیہعد کے محل کے سامنے ٹیکسوں میں اضافے اور گھریلو سبسڈی ختم کئے جانے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے۔ سعودی عرب نے جو دنیا میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اس نے ایسی اصلاحات کو نافذ کیا ہے جس میں ایندھن کی سبسڈی کم کرکے ویلیو ایڈیٹ ٹیکس VAT میں اضافہ کردیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ان اصلاحات کا مقصد، تیل کی قیمت میں کمی کے باعث آمدنی میں ہونے والی کمی کی تلافی کرنا ہے اس لئے کہ 2018 میں سعودی عرب کو باون ارب ڈالر کا بجٹ خسارہ ہے۔
لیکن ماہرین ، یمن کے خلاف ریاض کی انتہائی مہنگی جنگ شروع کرنے، آل خلیفہ کے حق میں بحرین میں سرکوب کرنے والی مداخلت، علاقے منجملہ عراق، شام اور لبنان میں دہشت گرد تکفیری گروہوں کی حمایت اور فتنہ انگیزی نیز مغرب سے اربوں ڈالر کے ہتھیاروں کی خریداری کو، سعودی عرب کے بجٹ میں کمی کا اصلی عامل قرار دے رہے ہیں۔ ساتھ ہی یہ کہ تیل کی قیمت میں کمی، کہ جو کچھ دنوں قبل تک جاری تھی، مزاحمتی محاذ کو نقصان پہنچانے اور دباؤ قائم کرنے کے لئے آل سعود کی سازشی پالیسیوں کے تحت کی گئی تھی لیکن اس سازشی دام میں خود صیاد گرفتار ہوگیا اور اس پالیسی کے جاری رہنے کا خود الٹا اثر سعودی عرب پر ہوا ہے کہ جس کی معیشت مکمل طور پر تیل سے وابستہ ہے۔
آل سعود کے خلاف احتجاج اور ناراضگیوں کی نئی لہر ایسے میں اٹھی ہے کہ اقوام عالم 2011 سے سعودی عرب کی حکومت کے خلاف شدید احتجاجات کا مشاہدہ کر رہی ہیں لیکن سعودی حکام ان مظاہروں کو سرکوب کرنے کے ذریعے سعودی عوام کی تحریک کو کچلنے میں کوشاں ہیں۔ ہیومن رائٹس نے اعلان کیا ہے کہ سعودی حکومت 2017 میں احتجاجی مظاہرین ، مصنفین اور سیاسی سرگرم کارکنوں کو کچلنے میں تیزی لائی ہے۔
سعودی حکام نے 2014 سے تقریبا تمام احتجاج اور اعتراض کرنے والوں پر کریمنل کورٹ میں مقدمہ چلایا ہے اور ان میں سے بہت سوں کے لئے موت کی سزا یا طولانی مدت قید کی سزا سنائی ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ آل سعود مغربی ملکوں کی حمایتوں سے اس کوشش میں ہے کہ نئے عیسوی سال 2018 میں سرکوبی کے عمل میں اور تیزی لائے۔ اسی دائرے میں آل سعود نے مخالفین کو سرکوب کرنے کے لئے براہ راست محمد بن سلمان کے زیر کمان، ایک خوفناک فوجی یونٹ بنائی ہے۔ مشرق وسطی کے ماہر محمد علی کارٹر کے بقول اس یونٹ میں پانچ ہزار سے زائد فوجی اور سیکورٹی اہلکار شامل ہیں۔
سعودی حکومت کے مخالفین کا کہنا ہے کہ سعودی حکام، اپنے متعصبانہ رویے اور مذہبی بنیادوں پر روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کے خلاف اٹھنے والی صدائے احتجاج کو دبانے کے لئے ، مخالفین کو مختلف الزامات کے تحت پھانسی پر چڑھا دیتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ سلمان بن عبدالعزیز کے برسراقتدار آنے کے بعد سے سعودی عرب میں پھانسی کی سزاؤوں پر عملدرآمد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی حکام، مخالفین کو کچلنے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مبہم قوانین کے ذریعے ملک کے چھوٹے سے شہری سماج کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کے سرگرم وکلا، مصنفین اور صحافیوں نے سلمان بن عبدالعزیز کے نام ایک خط میں ، سیاسی کارکنوں کی سرکوبی ، گرفتاریوں اور ان پر مقدمات چلائے جانے پر کڑی نکتہ چینی کی تھی۔ اس خط پر دستخط کرنے والوں نے تمام سیاسی قیدیوں اور گرفتار وکلا کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے، سیاسی بنیادوں پر گرفتاریوں اور پولیس اور سیکورٹی اداروں کے ذریعے شہریوں کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ فوری طور پر بند کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا تھا ۔ سعودی وکلا، مصنفین اور صحافیوں نے اس خط میں ، آل سعود کی سیکورٹی پالیسیوں پر نظرثانی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سلمان بن عبدالعزیز کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے، عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد کی بحالی اور اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔
سعودی حکام کا جمہوریت سے ناطہ اچھا نہیں ہے اور وہ شہریوں کے سیاسی اور قانونی مطالبات کو برداشت نہیں کرتے اور تشدد، گرفتاریوں اور پھانسیوں کے ذریعے ان کا جواب دیتے ہیں۔ سعودی عرب کی انسانی حقوق کی تنظیم القسط کے سربراہ یحیی عسیری نے بھی سعودی حکومت کی تشدد آمیز پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ سعودی حکام سیاسی کارکنوں کے مطالبات کو نظر انداز کرتے ہوئے عوام کو کچلنے اور انہیں دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔