انٹرپارلیمنٹری یونین، عالم اسلام اور علاقائی قوموں کی آواز،
تہران میں او آئی سی کی انٹرپارلیمنٹری یونین کی جنرل کمیٹی کا بیسواں اجلاس ہو رہا ہے - اسلامی تعاون تنظیم کی انٹرپارلیمنٹری یونین کا بیسواں اجلاس پیر کی صبح شروع ہوا ہے جس میں چوالیس ممالک کے پارلیمانی اسپیکر ، ڈپٹی اسپیکر اور وفود موجود ہیں-
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی نے اس اجلاس میں اسلامی ممالک کے درمیان باہمی تعاون کی اچھی صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک کو ان برسوں میں اس موضوع پر مزید توجہ دینا چاہئے تھی کہ اسلامی ممالک کی اقتصادی صلاحیتوں سے کس طرح ایک دوسرے کی اقتصادی ترقی کے لئے بہتر انداز میں استفادہ کیا جا سکتا ہے- ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر کا اشارہ مختلف چیلنجوں و مسائل کا مقابلہ کرنے میں ہاتھ سے نکل جانے والے مواقع کی جانب تھا- لیکن اس مقصد کے تحت اس اجلاس کے انعقاد کی کیا اہمیت ہے اور کیا اس اجلاس کے فیصلے عالم اسلام کے درمیان تعاون کے مستقبل کو روشن کرسکتے ہیں-
حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ ایک عشرے کو عالم اسلام کے لئے تاریک اور مشکل دور کہا جا سکتا ہے جس کا سبب علاقے میں امریکہ ، اسرائیل اور سعودی عرب کے مثلث کے حمایت یافتہ دہشتگردوں کی یلغار تھی- ایسی سازش کہ جس نے عالم اسلام کو بے پناہ چیلنجوں اور مسائل سے دوچار کردیا اور امریکہ کو بیت المقدس کو صیہونی حکومت کے دارالحکومت کے طور پر اعلان کرنے کا موقع فراہم کردیا- اس تاریکی سے باہر نکلنے کا واحد راستہ اقتصادی ، فوجی ، سائنسی اور ٹیکنالوجی سمیت تمام میدانوں میں استقامت کی بنیادوں کو مضبوط بنانا اور باہمی اتحاد و یکجہتی پیدا کرنا ہے- یعنی وہی اصول و ضوابط جو صدیوں سے بھلا دیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے اسلامی ممالک بڑھتی ہوئی پسماندگی میں مبتلا ہوگئے ہیں- لیکن سامراجی و استحصالی طاقتیں یہ کوشش کررہی ہیں کہ اس ذلت آمیز وابستگی کو امن و سیکورٹی سے لے کر اقدار و عقائد اور دین و ثقافت تک پر مسلط کردیں-
ان تمام مسائل کا خلاصہ اسلاموفوبیا میں ہوتا ہے- اگر اسرائیل اور امریکہ یہ کوشش کررہے ہیں کہ فلسطین کے حقوق کو پامال کردیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ قلب اسلام کو زخمی و مجروح کرنا چاہتے ہیں اور بیت المقدس کے تشخص کو مٹانا چاہتے ہیں اس بنا پر ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے- اسلامی ممالک کو فلسطینی عوام کی مظلومیت میں اضاافہ نہیں ہونے دینا چاہئے- متعدد جنگیں مسلط کیا جانا، علیحدگی پسندانہ نظریات پھیلانا، اختلاف پیدا کرنا اور مسلمانوں کی صفوں میں دراڑ ڈالنا وغیرہ وہ چیلینجز ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ صرف امریکہ اور اسرائیل ہی نہیں ہیں جن کی حریص نگاہیں عالم اسلام پر لگی ہوئی ہیں- افسوس کہ غفلت اور اغیار کے بہکاوے کا شکار بعض حکومتیں اس تباہ کن اور انحرافی راستے پرمسلم امۃ کے دائمی دشمنوں کے ہدف کو پورا کرنے میں لگ گئی ہیں اورسعودی عرب ان کا سرغنہ بن گیا ہے- اس بنا پر یہ کہنا چاہئے کہ عالم اسلام کو درپیش چیلینجز اور مواقع ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں - لہذا اس مشکل و ناہموار راستے پر اسلامی ممالک اور مسلم معاشروں کی یکجہتی و قدم سے قدم ملا کر چلنے کی صورت میں ہی عالم اسلام میں سیاسی و اقتصادی میدانوں میں نئے باب کا آغاز ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو تباہی و بربادی ہی مقدر ہوگی -
اسلامی ممالک خام مال کی فروخت اور سستی افرادی قوت برآمد کر کے اپنی معیشت کو آگے بڑھا رہے ہیں جبکہ سعودی عرب کی چارسوارب ڈالر مالیت کی قراردادیں اور علاقے کے دیگر عرب ممالک کے بڑے بڑے معاہدوں کا فائدہ مغربی ممالک کی کمپنیوں کی جیبوں میں جا رہا ہے جبکہ امریکی صدر ٹرمپ انھیں دودھ دینے والی گائے سے تشبیہ دے چکے ہیں کہ جسے دوہنا چاہئے- البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ صورت حال جاری نہیں رہے گی بلکہ ایک ایسے اقتصادی ، سماجی اور سیکورٹی دھماکے پر منتج ہوگی کہ جس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے اور اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ یہ نقصانات علاقے اور کسی خاص ملک تک محدود نہیں رہتے-