یورپ، اپنی ساکھ بچانے کی کوشش کرے
امریکہ اور یورپ ایٹمی سمجھوتے میں اصلاحات کی بات کر رہے ہیں وہ بھی ایسے وقت جب صیہونی وزیراعظم نتن یاہو تہران کے خلاف بیانات دے رہے ہیں اور تاکید کر رہے ہیں کہ ایٹمی سمجھوتے کو منسوخ ہونا چاہئے۔
امریکہ کی جانب سے ایٹمی سمجھوتے میں اصلاحات اور یورپ کی جانب سے واشنگٹن کی ہاں میں ہاں ملانے کا سلسلہ ایسے عالم میں شروع ہوا ہے کہ ایران نے با رہا اعلان کیا ہے کہ وہ ایٹمی سمجھوتے میں اصلاحات یا اس کے بارے میں دوبارہ مذاکرات کرنے کے لئے تیار نہیں ہے- البتہ یورپی بظاہر اس موقف میں امریکہ کے ساتھ کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم بعض یورپی ذرائع ابلاغ نے ابھی حال ہی میں جو اعلان کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ مذاکرات کے پیچھے کوئی اور سازش ہے-
شروع میں فرانس نے کہ جو گروپ پانچ جمع ایک کا رکن ہے، ایران کے ساتھ میزائل پروگرام کے بارے میں مذاکرات کی بات اٹھائی جس پر ایران نے سخت ردعمل کا اظہار کیا- کچھ دنوں بعد اشپیگل نے لکھا کہ جرمنی بھی جو گروپ پانچ جمع ایک کا ہی رکن ہے، ایسی پابندیاں عائد کرنا چاہتا ہے جس سے ٹرمپ بھی خوش رہیں اور ایٹمی سمجھوتہ بھی برقرار رہے- اب کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ بھی جو ایٹمی سمجھوتے پر دستخط کرنے والا تیسرا یورپی ملک ہے، امریکہ کے ساتھ ہوگیا ہے تاکہ ایٹمی سمجھوتے میں اصلاحات کے لئے ایک ورکنگ ٹیم تشکیل دے- ایک ایسا ورکینگ گروپ کہ جو ایٹمی سمجھوتے میں اضافی پروٹوکول شامل کرے جس کی بنیاد پر تہران کے غیرایٹمی شعبوں کو بھی پابندیوں کا نشانہ بنایا جائے-
تہران پر دباؤ ڈالنے کے لئے انجام پانے والی یہ کوششییں ایسے عالم میں انجام پا رہی ہیں کہ ایران کو ایٹمی سمجھوتے پر عمل درآمد کر کے دو سال گذرنے کے باوجود اپنے مقاصد حاصل نہیں ہو سکے ہیں بنا برایں ایران کو ایک ایسے معاہدے کے تحفظ کے لئے دوبارہ مذاکرات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے جس سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے-
ایران ، ایٹمی سمجھوتے کو ایک بین الاقوامی دستاویز اور ایک چند فریقی معاہدہ سمجھتا ہے بنا برایں اس کے بارے میں دوبارہ مذاکرات کے لئے کسی بھی طرح کے دباؤ کو عہد شکنی کی علامت سمجھتا ہے کہ جو گروپ پانچ جمع ایک کا اعتبار و حیثیت ختم ہونے پر منتج ہوگی-
تہران بخوبی جانتا ہے کہ اگر یورپ بھی امریکہ کے ساتھ مل جائے اور دونوں میزائلی پروگرام یا علاقائی مسائل کے نام پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کریں تو بھی سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف کوئی قرارداد منظور نہیں کرا سکتے اور سابقہ پابندیاں دوبارہ بحال نہیں کرا سکتے کیونکہ قوی امکان اس بات کا ہے کہ روس اور چین گروپ پانچ جمع ایک کے دو دیگر رکن کی حیثیت سے مغرب کی عہد شکنی میں شامل نہیں ہوں گے-
ان حالات میں کوئی وجہ نہیں کہ ایران ، یورپ و امریکہ کے مطالبات تسلیم کرے - ایک طرف ایران یہ سمجھتا ہے کہ ایٹمی سمجھوتے میں اصلاحات کے بعد بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ مغرب، دوبارہ نئے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرے گا- دوسری جانب ایٹمی سمجھوتہ پر بخوبی عمل درآمد کے باوجود بھی ایران کو ایٹمی سمجھوتے کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوا بنا برایں معاہدے میں اصلاحات کا مزید پابندیوں کے سوا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا- بنا برایں بہتر ہے کہ یورپ اور امریکہ حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ایران سے حقیقت پسندانہ توقعات رکھیں اور ایسے مطالبات نہ کریں جن کے بارے میں انھیں یقین ہے کہ تہران اس کا منفی جواب دے گا- ایسی توقعات سے صرف امریکہ اور یورپ کی وعدہ خلافیوں کی نمائش ہوتی ہے اور مغربی حکومتوں کے معاہدوں کا اعتبار ختم ہونے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہے اور دنیا کو بھی یہ پیغام جات ہے کہ یورپ ، امریکہ کی کالونی کے علاوہ کچھ نہیں ہے -
اگر یورپ ، ایران پر دباؤ ڈالنے کے بجائے ڈونالڈ ٹرمپ پر ایٹمی سمجھوتے کی پابندی کے لئے دباؤ ڈالتا تو اپنی خودمختاری اوراپنے عالمی اثرات کا بھی دفاع کرتا اور یہ بھی ثابت کرتا کہ وہ ایک خودمختار کیرکٹر کی حیثیت سے عالمی تبدیلیوں میں ایک موثر کردار ادا کرسکتا ہے-