Jan ۲۸, ۲۰۱۸ ۱۷:۲۶ Asia/Tehran
  • جنوری 2018 میں سعودی عرب کے فوجی ٹھکانوں پر دس میزائل فائر کئے گئے

یمنی فوج اور تحریک انصاراللہ نے گذشتہ روز صوبہ الجوف کے علاقے المہاشمہ میں سعودی اتحاد کے ٹھکانوں پر دو میزائل داغے۔ ان دومیزائلوں کے داغے جانے کے ساتھ ہی نئے عیسوی سال 2018 کے آغاز سے اب تک تقریبا دس میزائل سعودی عرب کے فوجی ٹھکانوں پر داغے جاچکے ہیں۔

یمن میں محمد بن سلمان کا خواب نہ صرف شرمندۂ تعبیر نہ ہوا بلکہ سعودی حکومت اپنے ہی بنائے ہوئے دلدل میں دھنستی جا رہی ہے۔ مشرق وسطی کے سب سے غریب عرب ملک یمن نے، آل سعود کی تمام فوجی اسٹریٹیجی کو ناکامی سے دوچار کردیا۔ یمنی عوام نے جنگ کے دو ابتدائی برسوں میں آل سعود کے خلاف زبردست مزاحمت و استقامت کرکے اور گذشتہ ایک سال کے دوران میزائل بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کے ساتھ ہی یہ کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ سعودی حکومت کو توقع تھی کہ عبداللہ صالح کی سازش گذشتہ سال دسمبر میں یمن کی جنگ کی صورتحال کو تبدیل کردے گی اور آل سعود کی اہم ترین خواہش، یمن کے اقتدار کے ڈھانچے سے انصاراللہ کے خاتمے کے ساتھ ہی پوری ہوجائے گی۔

لیکن یہ سازش صالح کی موت کے ساتھ ہی بہت جلد ناکام ہوگئی اور بہت جلدی یہ بات واضح ہوگئی کہ یمن، آل سعود کے لئے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ ایسے حالات میں آل سعود حکومت نے ایک بارپھر اپنے حملوں کا رخ اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف موڑا ہے اور حتی اس راستے میں اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ نیکی ہیلی نے پندرہ دسمبر کو میزائل کا ایک ٹکڑا دکھاتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ یہ میزائل ایرانی کارخانے کا بنا ہوا ہے تاکہ یمن کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کی یکسوئی و ہم آہنگی کو ظاہر کرسکے۔

ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ یمنی فوج اور انصاراللہ کے توسط سے جارح سعودی عرب کے خلاف 2018 میں میزائل حملوں میں تیزی آنے کے سبب، سعودی عرب ایک بار پھر اسلامی جمہوریہ ایران پر یہ الزام عائد کردے کہ ایران انصاراللہ کو میزائل فراہم کر رہا ہے۔ البتہ ایران کے خلاف الزام تراشی کی اسٹریٹیجی، شکست خوردہ شمار ہوتی ہے کیوں کہ اس سے قبل بھی نیکی ہیلی کے پندرہ دسمبر کے بیان کے صرف اڑتالیس گھنٹے بعد، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان فرحان حق نے باضابطہ طور پر اعلان کیا تھا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ یمن سے سعودی عرب پر داغا گیا میزائل ایران کا بنایا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی نے بھی اعلان کیا ہے کہ اس میزائل کا ایران سے کوئی ربط نہیں ہے۔ فرحان حق سے پہلے اقوام متحدہ میں روسی نمائندہ واسیلی نبنزیا نے بھی نیکی ہیلی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دعوے بے بنیاد ہیں۔ 

ایران کی قومی سلامتی کی اعلی کونسل کے سیکریٹری علی شمخانی نے کہا کہ یمن کے خلاف سعودی عرب کا بری ، بحری اور فضائی سخت محاصرہ جاری ہے اس طرح سے کہ ان تک غذائی اشیاء اور ضرورت کے سامانوں کو نہیں پہنچایا جا سکتا ۔ ایسے میں ایران کی جانب سے یمن کو میزائل فراہم کرنے کا دعوی کیسے صحیح ہوسکتا ہے اس لئے کہ میزائل کوئی چھوٹا غذائی پیکج تو ہے نہیں بلکہ ایک بہت بھاری اور سنگین وسیلہ ہے جسے کشتی کے ذریعے منتقل نہیں کیا جاسکتا ۔ تو ایسے میں جب ایک ملک بری ، بحری اور فضائی محاصرے میں ہو اور پھر یہ دعوی کیا جائے کہ اس کو میزائل فراہم کیا جا رہا ہے یہ واقعا ایک احمقانہ دعوی ہے۔ 

الاخبار نے بھی اپنی کل کی اشاعت میں سوئیٹزر لیند کے شہر ڈیووس اجلاس میں سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یمن کی جنگ میں شکست، ریاض اور ابوظہبی کے مزاج پر بہت گراں ہے اسی لئے وہ اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کے لئے ایران کی مداخلت کا ڈھونگ رچا رہے ہیں اور یمن میں تقریبا جو بھی واقعہ رونما ہوتا ہے تو عادل الجبیر اپنی زبان پر ایسے کلمات لاتے ہیں جس میں وہ عالمی برادری سے گویا یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ایران کی جانب سے ، انصاراللہ  کو بیلسٹک میزائل فراہم کرنے سے روکا جائے گویا ان کے پاس اپنی ناتوانی پر پردہ ڈالنے کے لئے اس موقف کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

ایسے حالات میں خیال کیا جا رہاہے کہ سعودی عرب کے بعض حامی ممالک، یمن میں ریاض کی شکست کو بھانپتے ہوئے اس کوشش میں ہیں کہ سیاسی مذاکرات کے احیاء کے لئے حالات فراہم کئے جائیں۔ چنانچہ یمن کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی مارٹین گریفیس کا انتخاب اور اس انتخاب کے صرف دو روز بعد برطانوی وزیر خارجہ بوریس جانسن کا دورہ عمان اور سعودی عرب بھی، اسی تناظر میں قابل غور ہے۔ خبروں کے مطابق بوریس جانسن نے گذشتہ ہفتے کے اواخر میں اپنے دورہ عمان میں ، یمن کے بارے میں مذاکرات کے احیاء کے لئے،عمان سے ثالثی کی اپیل کی تھی۔ یمنی میڈیا کے ماہر حمید رزق نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ سعودی عرب کے اندر حساس اہداف پر میزائل حملے، ممکن ہے جنگ کے جاری رہنے پر ان کے نظرثانی کرنے کا باعث بن جائیں، کہتے ہیں کہ صرف اسی صورت میں کہ جب یمن کی جنگ کے مقابلے میں عالمی برادری کا موقف تبدیل ہوجائے ، ہم اس جنگ کے روکے جانے کی امید لگا سکتے ہیں۔

ٹیگس