عراق ، سعودی عرب سے ملحقہ سرحد پر بارڈر پوسٹ قائم کرے گا
عراقی حکام نے اس ملک کے سرحدی علاقے میں اس ملک کی رضاکار فورس الحشدالشعبی کی وسیع پیمانے پر فوجی کارروائی کے خاتمے کے بعد، سعودی عرب سے ملحقہ اپنے سرحدی علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لئے اور اس علاقے میں دہشت گردوں کی روک تھام کے لئے بارڈر پوسٹ قائم کرنے کی خبر دی ہے۔
ایک عراقی فوجی عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ عراق کے لئے بارڈر پوسٹ قائم کرنا ضروری ہے کیوں کہ سعودی عرب سے ملحقہ عراق کے سرحدی علاقوں میں ایسے حساس مقامات موجود ہیں کہ جو عراق میں دہشت گردوں کے داخل ہونے کا دروازہ بن سکتے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق سعودی عرب سے ملحقہ عراق کے سرحدی علاقوں میں بارڈر پوسٹ نصب کئے جانے کا مقصد، داعش سے وابستہ ان دہشت گردوں کا پیچھا کرنا اور انہیں ختم کرنا ہے جو داعشیوں کے قبضے سے آزاد ہونے والے شہروں سے فرار کرکے، نام نہاد اتحادی فورسز کے طیاروں کی مدد کے ذریعے عراق کے صحراؤں اور پہاڑی علاقوں میں منتقل کردیے گئے ہیں۔
درحقیقت عراقیوں کی کوشش ہے کہ بارڈر پوسٹ قائم کرنے کے ذریعے، عراق میں سعودی عرب سے داخل ہونے والے دہشت گردوں کی آمد ورفت میں رکاوٹ بن جائیں۔ سعودی عرب نے اگرچہ اپنی تشکیل کے وقت سے لے کر آج تک کسی بھی میدان میں کامیاب عمل نہیں کیا ہے۔ لیکن تین موارد میں اس کا ریکارڈ ہے۔ مغرب سے ہتھیاروں کی خریداری ، انسانی حقوق اور آزادیوں کی خلاف ورزی، اور دہشت گردی کی حمایت کے مسئلے میں آل سعود پہلے نمبر پر ہے اور اسی سبب سے سعودی عرب کی غلط ڈیپلومیسی اس بات کا باعث بنی ہے کہ ریاض دنیا کا وہ واحد ملک بن گیا ہے جو دنیا کے مختلف علاقوں میں تکفیری دہشت گرد گروہوں کے پھیلنے کا ذمہ دار ہے۔ کیوں کہ گذشتہ چارعشروں کے دوران اس ملک کے تیل کی فروخت اور برآمدات سے حاصل ہونے والی زیادہ تر آمدنی کا حصہ، وہابی طرز فکر کے ساتھ تشدد اور انتہاپسندی پر مبنی نظریات کی ترویج سے مختص کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں فارن پالیسی جریدے نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب کی نیشنل گارڈ اور اس ملک کی وزارت دفاع کے توسط سے، ریاض کے جنوب مشرقی شہر الخزرج کی 130 ویں ایئر ڈیفنس بٹالین کے اڈے میں بڑے پیمانے پر دہشت گردوں کو ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اس فوجی اڈے میں دو مہینے تک ٹریننگ دی جاتی ہے اور ہر مرحلے میں چار سو دہشت گرد ٹرینگ پاتے ہیں۔ یہ دہشت گرد عناصر، دنیا کے مختلف علاقوں منجملہ یورپی ، ایشیائی اور افریقی ملکوں خاص طور پر جرمنی ، فرانس، چچنیہ ، تاتارستان ، الجزائر ، مصر وغیرہ سے، ملک خالد نامی خیراتی ادارے کے ذریعے ریاض کے حی الشرقیہ علاقے میں لائے جاتے ہیں کہ جہاں اس کا اصلی ہیڈکوارٹر ہے۔
خبری ذرائع نے عراق کے صوبے بصرہ اور دیگر علاقوں میں سعودی ایجنٹوں کے ذریعے اس ملک کی زرعی اراضی خریدنے کے لئے سعودی شخصیات کی وسیع کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس صوبے اور پورے عراق میں سعودی عرب کے توسط سے نئی سازش رچائے جانے کی خبر دی ہے۔
سعودی عرب کی ملکی اور غیر ملکی سرگرمیوں پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ خطے اور دنیا کی سطح پر دہشت گردی میں ملوث اکثر عناصر کا تعلق یا تو سعودی عرب سے ہے یا وہ سعودی عرب کی وہابیت سے متاثر ہیں اور ان کو آل سعود کی مالی اور اسلحہ جاتی حمایت حاصل ہے۔ ان دہشت گرد گروہوں کی جڑ وہابیت کے غلط اور انتہا پسندانہ نظریات ہی ہیں۔ ان غلط عقائد نے ہی خطے اور دنیا میں آل سعود کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ جیسا کہ اس وقت سعودی عرب کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہ منجملہ داعش اور القاعدہ، مختلف ناموں کے ساتھ مثلا انصار الشریعہ، بوکوحرام اور الشباب افریقہ ، ایشیا حتی یورپ میں سرگرم ہیں اور یہ گروہ عالمی سلامتی کے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں۔
عراق اس وقت بھی مشرق وسطی کے علاقے میں سعودی حکومت کی مداخلتوں کا اہم مرکز ہے۔ بہت سے قرائن و شواہد کی بنیاد پر کہ جس کی جانب حکومت عراق نے بھی بارہا اشارہ کیا ہے، سعودی حکومت ہی عراق کے خونریز واقعات کی ماسٹر مائنڈ اور اس ملک میں دھماکے کرانے والی ہے۔ سعودی عرب کے پیسوں اور تکفیری عناصر کی ٹریننگ نے اس محروم ملک کے لئے ایک تلخ سرنوشت رقم کی ہے۔ سعودی عرب کے اقدامات اس امر کے غماز ہیں کہ ریاض حکومت اپنے پروپیگنڈوں اور سازشی اقدامات کے ذریعے داعش کے بعد عراق کو متعدد مسائل و مشکلات سے دوچار کرنے میں کوشاں ہے۔
سنڈے ٹائمز جریدے نے اپنے ایک مضمون میں عراق میں سعودی عرب کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے بارے میں لکھا کہ عراق میں گرفتار ہونے والے نصف سے زائد دہشت گردوں کا تعلق سعودی عرب سے ہے اس جریدے نے لکھا ہے کہ اس کے پاس ایسے آڈیوٹیپ موجود ہیں کہ جن میں سعودی مفتی اور اس ملک کے اعلی حکام کی آوازیں ریکارڈ ہیں اور وہ سعودی جوانوں کو عراق میں دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دینے کی اپیل کر رہے ہیں اور ان کو اس کام کی ترغیب دلا رہے ہیں۔
سعودی عرب نے علاقے منجملہ عراق میں اپنی توسیع پسندی کا دائرہ مزید پھیلانے کے مقصد سے عراق میں اور اس سےملحقہ سرحدوں پر بدامنی پھیلانے کے لئے دہشت گردوں کو استعمال کیا۔ ایسے میں عراقی یہ چاہتے ہیں کہ وہ مختلف طریقوں سے ملک میں امن و امان قائم کرنے کے لئے دہشت گردوں کے حامیوں کے اقدامات اور عراق میں دہشت گردوں کے داخلے اور ان کی آمد و رفت پر روک لگاکر آل سعود کے توسیع پسندانہ مقاصد کو ناکام بنادیں اور سعودی عرب سے ملحقہ اپنی سرزمین کا بھرپور طریقے سے تحفظ کریں
تکفیری دہشت گرد گروہ صرف عراق اور شام میں ہی نہیں بلکہ وہ شمالی افریقہ کے بہت سے ممالک مثلا مصر، لیبیا اور تیونس میں بھی سرگرم ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی کی برآمدات کو تیل کے بعد سعودی عرب کی دوسری بڑی برآمدات قرار دیا جاسکتا ہے اور سعودی عرب تخریب کاری پر مبنی اپنے اقدامات کی وجہ سےدنیا بھر میں دہشت گردانہ نظریات کو پروان چڑھانے اور دہشت گردوں کی مدد کرنے والے سب سے بڑے ملک میں تبدیل ہوچکا ہے۔